کتاب: بیٹی کی شان وعظمت - صفحہ 89
سے ان کا پورا پورا حق دلوائے۔ بیٹے کا حصہ بیٹی سے دوگنا ہونے کی حکمت: بیٹے کے حصے کے دُوگنا رکھنے کی حکمت یہ ہے، کہ اس کی خرچ کرنے کی ذمہ داریاں بیٹی کے مقابلہ میں زیادہ ہوتی ہیں۔ لڑکے کو خود اپنے آپ پر، اپنی بیوی پر اور اپنی اولاد پر خرچ کرنا ہوتا ہے۔ لڑکی صرف اپنے آپ پر خرچ کرتی ہے اور شادی کے بعد اس کے اخراجات کی ذمہ داری خاوند پر ہوتی ہے۔ اس طرح بسا اوقات وراثت میں لڑکی کا حصہ، اخراجات میں لڑکے کی ذمہ داری کے مقابلے میں، کہیں زیادہ ہوجاتا ہے۔[1] مردوں پر اخراجات کی ذمہ داری: اس سلسلے میں تین دلائل ذیل میں ملاحظہ فرمائیے: ا: عورتوں کی بجائے مردوں پر اخراجات کی ذمہ داری: اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: {اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآئِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَھُمْ عَلٰی بَعْضٍ وَّ بِمَآاَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِھِمْ}[2] [مرد عورتوں پر اس وجہ سے نگران ہیں، کہ اللہ تعالیٰ نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت عطا کی اور اس وجہ سے، کہ انہوں نے اپنے مالوں سے خرچ کیا۔] شیخ احمد المراغی آیت شریفہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ’’وَجَعَلَ حَظَّہُمْ مِنَ الْمِیْرَاثِ أَکْثَرَ مِنْ حَظِّہِنَّ، لِأَنَّ عَلَیْہُمُ النَّفَقَۃَ مَا لَیْسَ عَلَیْہِنَّ۔‘‘[3]
[1] صحیح البخاري ۱۲/۱۴۔ ملاحظہ ہو: تفسیر الرازي ۹/۲۰۷؛ وتفسیر المنار ۴/۴۰۶؛ وفي ظلال القرآن ۱/۵۹۱؛ وتفسیر المراغي ۴/۱۹۶۔ [2] سورۃ النساء/ جزء من الآیۃ ۳۴۔ [3] تفسیر المراغي ۵/۲۷، نیز ملاحظہ ہو: تفسیر الرازي ۱۰/۸۷؛ وتفسیر أبي السعود ۲/۱۷۳/۱۷۴؛ وتفسیر المنار ۵/۶۷۔