کتاب: بیٹی کی شان وعظمت - صفحہ 77
[قرائن] پر (خود) غور کیجئے۔‘‘] ۶: عطیہ میں اولاد کے درمیان مساوات کی کیفیت کے بارے میں علمائے امت میں اختلاف ہے۔ حضرات ائمہ محمد بن حسن، احمد، اسحق اور بعض شافعی اور مالکی علماء کے نزدیک عدل یہ ہے، کہ وراثت کی تقسیم کی مانند ایک بیٹے کو دو بیٹیوں کے برابر عطیہ دیا جائے۔[1] حضرت ائمہ ابوحنیفہ، مالک، شافعی اور ابن المبارک کی رائے میں ہر لڑکی کو لڑکے کے برابر عطیہ دیا جائے،[2] کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بشیر بن سعد رضی اللہ عنہ کو حکم دیا: ’’سَوِّ بَیْنَھُمْ ۔‘‘ [3] ’’ان کے درمیان مساوات اختیار کیجئے۔‘‘ اس رائے کی تائید درج ذیل دو احادیث سے بھی ہوتی ہے۔ ا: امام سعید بن منصور اور امام بیہقی نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے حوالے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت نقل کی ہے، کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سَوُّوْا بَیْنَ أَوْلَادِکُمْ فِيْ الْعَطِیَّۃِ، فَلَوْ کُنْتُ مُفَضِّلًا أَحَدًا لَفَضَّلْتُ النِّسَائَ۔‘‘[4] [’’عطیہ دینے میں اولاد کے درمیان برابری کرو۔ اگر میں کسی کو ترجیح دیتا، تو (عطیہ میں) عورتوں کو ترجیح دیتا۔‘‘] ب: امام ابن عدی نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے حوالے سے روایت نقل کی ہے، کہ
[1] ملاحظہ ہو: فتح الباري ۵/۲۱۴۔ [2] ملاحظہ ہو: المغني ۸/۲۵۹۔ [3] حدیث کی تخریج کے لیے اس کتاب کا ص ۷۲دیکھئے۔ [4] السنن الکبری للبیہقي، کتاب الہبات، جماع أبواب عطیۃ الرجل ولدہ، باب السنۃ في التسویۃ بین الأولاد في الہبۃ، رقم الحدیث ۱۲۰۰۰، ۶/۲۹۴۔ حافظ ابن حجر اس کے متعلق لکھتے ہیں: ’’اس کو سعید بن منصور نے اور بیہقی نے ان (یعنی سعید بن منصور] کی سند کے ساتھ روایت کیا ہے اور اس کی [سند حسن] ہے۔‘‘ (فتح الباري ۵/۲۱۴)۔ نیز ملاحظہ ہو: سبل السلام ۳/۱۷۲۔