کتاب: بیٹی کی شان وعظمت - صفحہ 61
’’فَإِنْ لَمْ یُوْجَدُ لِلْمَرْأَۃِ وَلِيٌّ وَلَا ذُوْ سُلْطَانٍ فَعَنْ أَحْمَدَ مَا یَدُلُّ عَلٰی أَنَّہُ یُزَوِّجُہَا رَجُلٌ عَدْلٌ بِإِذْنِہَا، فَإِنَّہُ قَالَ فِيْ دِھْقَانِ قَرْیَۃٍ: ’’یُزَوِّجُ مَنْ لَا وَلِيَّ لَہَا ، إِذَا احْتَاطَ لَہَا فِيْ الْکُفْئِ وَالْمَہْرِ، إِذَا لَمْ یَکُنْ فِيْ الرُّسْتَاقِ قَاضٍ۔‘‘[1] ’’(امام) احمد سے نقل کردہ روایت اس بات پر دلالت کرتی ہے، کہ اگر خاتون (کے نکاح) کے لیے نہ ولی ہو اور نہ سلطان، تو عادل شخص اس (خاتون) کی اجازت سے اس کا نکاح کروادے، کیونکہ انہوں نے بستی کے سربراہ کے متعلق کہا ہے: ’’جب علاقے میں قاضی نہ ہو، تو وہ (بستی کا سربراہ) کفو [2]اور مہر میں احتیاط کرتے ہوئے خاتون کا نکاح کروائے۔‘‘ ۳: بے رابطہ غائب کی ولایت کا دوسرے کو منتقل کرنا: علامہ ابوالقاسم الخرقی رقم طراز ہیں: ’’وَإِذَا کَانَ وَلِیُّہَا غَائِبًا فِيْ مَوْضِعِ لَا یَصِلُ إِلَیْہِ الْکِتَابُ أَوْ یَصِلُ فَلَا یُجِیْبُ عَنْہُ، زَوَّجَہَا مَنْ ھُوَ أَبْعَدُ مِنْہُ مِنْ عَصَبَاتِہَا۔ فَإِنْ لَمْ یَکُنْ فَالسُّلْطَانُ۔‘‘[3] ’’اگر ولی کسی ایسی جگہ غائب ہو، کہ اسے چٹھی نہ پہنچتی ہو، یا پہنچنے پر وہ
[1] المغني ۹/۳۶۲۔ [2] (کفو): یعنی دین و دنیا کے اعتبار سے اس کے ہم پلہ نہیں۔ (ملاحظہ ہو: تحریر ألفاظ التنبیہ للنووي: ص : ۲۵، وکتاب التعریفات للجرجانی ص ۲۳۷)۔ [3] مختصر الخِرَقی ۹/۳۸۵۔ تنبیہ: اس مسئلہ میں دو باتوں کے بارے میں فقہاء کا اختلاف ہے۔ پہلی بات یہ ہے، کہ ایسی صورت میں دور کے قرابت دار اور حاکم میں سے کون نکاح کروائے؟ احناف اور حنابلہ کی رائے میں دور کے قرابت دار کا حق پہلے ہے اور شوافع کے نزدیک حاکم کا حق پہلے ہے۔ الحمد للہ دونوں میں سے کسی ایک رائے پر بھی عمل کرنے سے نکاح میں موجود تعطل ختم ہوجائے گا۔ البتہ دونوں میں سے شاید راجح رائے احناف اور حنابلہ کی ہے۔ اس ترجیح کے دو اسباب ہیں۔ (۱) سلطان تب کسی خاتون کا ولی بنتا ہے، جب کہ اس کا ولی نہ ہو، لیکن اس خاتون کا تو ولی موجود ہے، اگرچہ وہ قرابت میں قدرے دور ہے۔ اس لیے سلطان اس کا ولی قرار نہیں پائے گا۔ (ملاحظہ ہو: المغني ۹/۳۸۵)۔ (۲) حاکم کی بجائے قرابت دار کے ذریعے سے نکاح کروانا نسبتاً آسان اور سہل ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ دوسری اختلافی بات یہ ہے، کہ بے رابطہ غائب ولی کے لا پتہ ہونے کی مدت کتنی ہے؟ اس بارے میں شرعی نص کے بغیر قطعی اور دوٹوک بات کہنا آسان کام نہیں۔ علامہ ابن قدامہ کی رائے موزوں معلوم ہوتی ہے، کہ جس مدت تک عرف عام میں انتظار نہ کیا جاتا ہو اور اس انتظار سے خاتون کو ضرر لاحق ہو۔ (ملاحظہ ہو: المرجع السابق ۹/۳۸۶)۔ واللہ تعالی أعلم۔