کتاب: بیٹی کی شان وعظمت - صفحہ 53
۲: حضرات ائمہ احمد، ابوداؤد، ترمذی، ابن ماجہ، ابن حبان اور حاکم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت نقل کی ہے، کہ یقینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’أَیُّمَا امْرَأَۃٍ نَکَحَتْ بِغَیْرِ إِذْنِ وَلِیِّہَا فَنِکَاحُہَا بَاطِلٌ، فَنِکَاحُہَا بَاطِلٌ، فَنِکَاحُہَا بَاطِلٌ۔‘‘[1] ’’جس کسی عورت نے بھی اپنے ولی کے بغیر نکاح کیا، تو اس کا نکاح باطل ہے، تو اس کا نکاح باطل ہے، تو اس کا نکاح باطل ہے۔‘‘ امام ابن حبان نے اس پر درج ذیل عنوان تحریر کیا ہے: [ذِکْرُ بُطْلَانِ النِّکَاحِ الَّذِيْ نُکِحَ بِغَیْرِ وَلَيٍّ] [2] [ولی کے بغیر کئے ہوئے نکاح کے بطلان کا ذکر] دو قابل توجہ باتیں: ا: شیخ محمد عبد الرحمن مبارکپوری حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں: ’’وَ(أَیُّمَا) مِنْ أَلْفَاظِ الْعُمُوْمِ فِيْ سَلْبِ الْوِلَایَۃِ عَنْہُنْ مِنْ
[1] المسند، رقم الحدیث ۲۴۲۰۵، ۴۰/۲۴۳؛ وسنن أبي داود، کتاب النکاح، باب في الولي، جزء من رقم الحدیث ۲۰۸۳، ۶/۶۹۔۷۰؛ وجامع الترمذي، أبواب النکاح، باب ما جاء لا نکاح إلا بولي، جزء من رقم الحدیث ۱۱۰۸، ۴/۱۹۲؛ وسنن ابن ماجہ، أبواب النکاح، لا نکاح إلا بولي، جزء من رقم الحدیث ۱۸۸۵، ۱/۳۴۶۔۳۴۷؛ والإحسان في تقریب صحیح ابن حبان، کتاب النکاح، باب الولي، جزء من رقم الحدیث ۴۰۷۴، ۹/۳۸۴؛ والمستدرک علی الصحیحین، کتاب النکاح ۲/۱۶۸۔ اس کو امام ترمذی نے [حسن] اور حضرات ائمہ ابوعوانہ، ابن خزیمہ، ابن حبان، حاکم، شیخ البانی اور شیخ ارناؤوط اور ان کے رفقاء نے [صحیح] قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: جامع الترمذي ۴/۱۹۳؛ وفتح الباري ۹/۱۹۱؛ والمستدرک ۲/۱۶۸؛ وصحیح سنن أبي داود ۲/۲۹۳؛ وصحیح سنن الترمذي ۱/۳۱۸؛ وصحیح سنن ابن ماجہ ۱/۳۱۶؛ وإرواء الغلیل ۶/۲۴۳؛ وھامش المسند ۴۰/۲۴۳)۔ الفاظِ حدیث جامع الترمذی کے ہیں۔ [2] الإحسان في تقریب صحیح ابن حبان ۹/۳۸۴۔