کتاب: بیٹی کی شان وعظمت - صفحہ 50
انہوں [ابن عمر رضی اللہ عنہما ] نے بیان کیا: ’’اس کے مالک ہونے [یعنی اس کے ساتھ نکاح ہونے] کے بعد وہ مجھ سے چھینی گئی، تو انہوں نے مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے اس کا نکاح کردیا۔‘‘[1] اگر عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ایسی عظیم شخصیت کے ساتھ دو شیزہ کی اجازت کے بغیر کیا ہوا نکاح باقی نہ رہا، تو اور کسی شخص کے ساتھ دو شیزہ کی مرضی کے خلاف نکاح کرنے کی اجازت کیونکر ہوسکتی ہے؟ تنبیہ: بیٹی کے سابقہ نکاح کے باوجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ کے اسی بیٹی کا رشتہ طلب کرنے پر احتساب نہ فرمایا ، کیونکہ بیٹی کی اجازت کے بغیر کیا ہوا نکاح شرعاً مردود ہوتا ہے۔ ولی کے بغیر بیٹی کے نکاح کا نہ ہونا یہاں یہ بات پیشِ نظر رہے، کہ جس طرح باپ یا ولی کو قطعی طور پر اس بات کا حق نہیں، کہ وہ کسی بیوہ یا دو شیزہ کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر کرے، اسی طرح کسی بیٹی کو، خواہ وہ دو شیزہ ہو یا بیوہ، اس بات کا قطعی طور پر حق نہیں، کہ وہ اپنے باپ یا ولی سے بالا بالا خود ہی اپنا نکاح کرے یا کسی اور کی وساطت سے کروالے۔ ایسے کئے ہوئے نکاح کی شرعی حیثیت سمجھنے کے لیے درج ذیل تفصیل ملاحظہ فرمائیے:
[1] المسند، رقم الحدیث ۶۱۳۶، ۹/۷۔۸ باختصار۔ حافظ ہیثمی نے اس کے راویان کو [ثقہ] قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: مجمع الزوائد ۴/۲۸۰)؛ شیخ احمد شاکر نے اس کی [سند کو صحیح] قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: ھامش المسند ۹/۷)۔ اس کو حضرات ائمہ دار قطنی، بیہقی اور حاکم نے بھی روایت کیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: سنن الدار قطني، کتاب النکاح، رقم الحدیث ۳۷، ۳/۲۳۰؛ والسنن الکبری للبیہقي، کتاب النکاح، باب ما جاء في إنکاح الیتیمۃ، رقم الحدیث ۱۳۶۹۲، ۷/۱۹۵؛ والمستدرک علی الصحیحین، کتاب النکاح، ۲/۱۶۷)۔ امام حاکم نے اس کو صحیحین کی شرط پر [صحیح] کہا ہے اور حافظ ذہبی نے ان سے موافقت کی ہے۔ (ملاحظہ ہو: المرجع السابق ۲/۱۶۷؛ والتلخیص ۲/۱۶۷)۔