کتاب: بیٹی کی شان وعظمت - صفحہ 32
’’وہ ان کے ساتھ عمدہ طرز عمل اختیار کرتا ہے اور ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے۔‘‘
حافظ ابن حجر مذکورہ بالا روایات ذکر کرنے کے بعد تحریر کرتے ہیں:
’’وَھٰذِہِ الْأَوْصَافُ یَجْمَعُہَا لَفْظُ الْإِحْسَانِ الَّذِي اقْتُصِرَ عَلَیْہِ فِيْ حَدِیْثِ الْبَابِ۔‘[1]
[اس باب کی حدیث میں جس لفظ [الإحسان] پر اکتفا کیا گیا ہے، وہ ان سب اوصاف پر مشتمل ہے۔]
مقصود یہ ہے، کہ بیٹیوں کے ساتھ ’’احسان‘‘ کرنے والا وہ ہے، جو ان پر صبر کرے، انہیں اچھا کھلائے، پلائے، پہنائے، ان پر خرچ کرے، ان کی شادی کرے، انہیں اچھے آداب سکھلائے، انہیں جگہ دے، ان پر شفقت کرے، ان کی کفالت کرے، ان کے ساتھ عمدہ طرزِ عمل اختیار کرے اور ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے۔
اے اللہ کریم! ہمیں اپنی بیٹیوں کے بارے میں یہ سب باتیں خوب خوب کرنے کی توفیق عطا فرمائیے۔ إنک سمیع مجیب۔
ب: اس بارے میں اختلاف ہے، کہ’’ احسان‘‘ کے لیے مذکورہ بالااوصاف کی واجب الذمہ حد کو پورا کرنا کافی ہے یا اس سے بھی زیادہ کرنا ہے۔
دوسری بات درست معلوم ہوتی ہے، کیونکہ اس عورت کے دونوں بیٹیوں کو اپنی ذات پر ترجیح دینے کی صورت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لفظ [الإحسان] استعمال فرمایا۔[2]
ج: احسان میں یہ شرط ہے، کہ شریعت کے مطابق ہو۔ شریعت کی مخالفت کرکے کچھ بھی کیا جائے، وہ احسان نہیں۔[3]
د: ہر شخص پر احسان اس کی استطاعت کے بقدر ہے۔[4]
[1] فتح الباري ۱۰/۴۲۸۔
[2] حافظ ابن ابی جمرہ ازدی الاندلسی تحریر کرتے ہیں، کہ [احسان] ان کے واجب الذمہ حق سے زیادہ دینا ہے۔ (ملاحظہ ہو: بہجۃ النفوس ۴/۱۴۹)۔
[3] ملاحظہ ہو: فتح الباري ۱۰/۴۲۸۔
[4] ملاحظہ ہو: المرجع السابق: ۱۰/۴۲۸۔