کتاب: بیٹی کی شان وعظمت - صفحہ 29
نے مجھ سے سوال کیا، لیکن اس نے میرے پاس سوائے ایک کھجور کے اور کچھ نہ پایا۔ میں نے اس کو وہی دے دی۔ اس نے اس کو لے کر ان دونوں میں تقسیم کردیا اور خود اس میں سے کچھ نہ کھایا۔ پھر وہ اٹھی اور اپنی دونوں بیٹیوں کے ہمراہ چلی گئی۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے ہاں تشریف لائے، تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا واقعہ سنایا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’مَنْ ابْتُلِيَ مِنَ الْبَنَاتِ بِشَيْئٍ، فأَحْسَنَ إِلَیْھِنَّ، کُنَّ لَہُ سِتْرًا مِنَ النَّارِ۔[1]
[جس شخص کو ان بیٹیوں میں سے کسی چیز کے ساتھ آزمائش میں ڈالا گیا اور اس نے ان کے ساتھ احسان کیا، تو وہ اس کے لیے [جہنم کی] آگ کے مقابلے میں رکاوٹ ہوں گی۔‘‘]
دوسری حدیث کے حوالے سے چار باتیں:
۱: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹوںکی کفالت و تربیت کرنے پر مذکورہ بالا اجر و ثواب کا ذکر نہیں فرمایا۔ امام ابن بطال حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
’’دَلِیْلٌ أَنَّ أَجْرَ القِیَامِ عَلَی الْبَنَاتِ أَعْظَمُ مِنْ أَجْرِ الْقِیَامِ عَلَی الْبَنِیْنِ، إِذْ لَمْ یَذْکُرْ عَلَیْہِ السَّلَامُ مِثْلَ ذٰلِکَ فِي الْقِیَامِ عَلَی الْبَنِیْنِ؛ وَذٰلِکَ ،وَاللّٰہُ أَعْلَمُ ، أَنَّ مَؤُوْنَۃَ الْبَنَاتِ وَالْاِھْتِمَامَ بِأُمُوْرِھِنُّ أَعْظَمُ مِنْ أَمُوْرِ الْبَنِیْنِ، لِأَنَّہُنَّ (عَذِرَات)[2]لَا یُبَاشِرْنَ أُمُوْرَھُنَّ، وَلَا یَتَصَرَّفْنَ تَصَرُّفَ الْبَنِیْنِ۔‘‘[3]
[1] متفق علیہ: صحیح البخاري، کتاب الأدب، باب رحمۃ الولد وتقبیلہ ومعانقتہ، رقم الحدیث ۵۹۹۵، ۱۰/۴۲۶؛ وصحیح مسلم، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب فضل الإحسان إلی البنات، رقم الحدیث ۱۴۷۔(۲۶۲۹)، ۳/۲۰۲۷۔ الفاظ حدیث صحیح مسلم کے ہیں۔
[2] ایک دوسرے نسخہ میں (عَوْراتٌ) کا لفظ ہے۔
[3] شرح صحیح البخاري ابن بطال ۹/۲۱۳، نیز ملاحظہ ہو: مرقاۃ المفاتیح ۸/۶۸۲۔