کتاب: بیٹی کی شان وعظمت - صفحہ 27
{اَلْمَالُ وَ الْبَنُوْنَ زِیْنَۃُ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَاج وَ الْبٰقِیٰتُ الصّٰلِحٰتُ خَیْرٌ عِنْدَ رَبِّکَ ثَوَابًا وَّ خَیْرٌ اَمَلًا}[1]
[مال اور بیٹے دنیا کی زندگی کی زینت ہیں اور باقیات صالحات آپ کے رب کے ہاں ثواب میں اور امید کی رُو سے زیادہ اچھی ہیں۔]
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے [الباقیات الصالحات] کو ثواب اور امید کے اعتبار سے مال اور بیٹوں سے بہتر قرار دیا۔ [الباقیات الصالحات] سے مراد کیا ہے؟ اس بارے میں مفسرین کے ایک سے زیادہ اقوال ہیں۔ امام عبید بن عمیر[2] کے قول کے مطابق ان سے مراد نیک بیٹیاں ہیں۔ علامہ قرطبی نقل کرتے ہیں، کہ انہوں نے آیت شریفہ کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا:
’’یَعْنِي الْبَنَاتِ الصَّالِحَاتِ ھُنَّ عِنْدَ اللّٰہِ لِآبَائِھِنَّ خَیْرٌ ثَوَابًا، وَخَیْرٌ أَمَلًا فِيْ الْآخِرَۃِ لِمَنْ أَحْسَنَ إِلَیْھِنَّ۔‘‘[3]
[1] سورۃ الکہف/الآیۃ ۴۶۔
[2] کبار تابعین اور مکہ مکرمہ میں موجود تابعین کے ائمہ میں سے تھے۔ انہوں نے حضرات صحابہ اپنے والد عمیر، عمر ، علی، ابی بن کعب، ابی موسیٰ اشعری، ابو ہریرہ ، ابو سعید خدری، عائشہ ، ام سلمہ ، ابن عمر ، ابن عمرو اور دیگر صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے احادیث روایت کی ہیں۔ مکہ مکرمہ میں ان کا حلقہ درس تھا، جس میں حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما بھی تشریف لاتے تھے اور ان کے درس کی تعریف کرتے تھے۔ عوام بن حوشب نے بیان کیا ہے ، کہ انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما کو ان کے درس میں روتے ہوئے دیکھا۔ امام ابن حبان نے لکھا ہے ، کہ وہ ۶۸ھ میں فوت ہوئے۔ ـ(ملاحظہ ہو: سیر أعلام النبلاء۴۱۵۶۔۱۵۷، و تہذیب التہذیب۷۷۱)۔
[3] تفسیر القرطبي ۱۰/۴۱۵۔۴۱۶۔