کتاب: بیٹی کی شان وعظمت - صفحہ 25
۲: یعقوب بن بختان نے بیان کیا: ’’میرے ہاں سات بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ جب بھی میرے ہاں بیٹی پیدا ہوتی ، تو (امام) احمد بن حنبل میرے پاس تشریف لاتے اور مجھ سے فرماتے:
’’یَا أَبَا یُوْسُفُ! الْأَنْبِیَائُ آبَائُ بَنَاتٍ۔‘‘
[’’اے ابو یوسف! انبیاء علیہم السلام بیٹیوں کے باپ تھے۔‘‘]
ان کا یہ فرمانا میرے غم کو ختم کر دیتا۔[1]
ب: بیٹی اور بیٹے دونوں کی ولادت پر مبارک باد دینا:
امام ابن قیم لکھتے ہیں:
’’ وَلَا یَنْبَغِيْ لِلرَّجُلِ أَنْ یُّھَنِّی ئَ بِالْاِبْنِ وَلَا یُہَنِّیْ ئَ بِالْبِنْتِ ، بَلْ یُھَنِّيئُ بِھِمَا أَوْ یَتْرُکُ التَّھْنِئَۃَ لِیَتَخَلَّصَ مِنْ سُنَّۃِ الْجَاھِلِیَّۃِ، فَإِنَّ کَثِیْرًا مِنْھُمْ کَانُوْا یُھَنَّئُوْنَ بِالْاِبْنِ ، وَبِوَفَاۃِ الْبِنْتِ دُوْنَ وِلَادَتِھَا۔‘‘[2]
[’’آدمی کے لیے جائز نہیں ، کہ بیٹے کی (پیدائش پر) مبارک باد دے اور بیٹی کی ( پیدائش پر) مبارک باد نہ دے، بلکہ وہ یا تو دونوں کی (پیدائش پر) مبارک باد دے یا دونوں پر نہ دے ، تاکہ وہ طریقہ جاہلیت سے بچ جائے ، کیونکہ ان کی اکثریت بیٹے کی (پیدائش پر) مبارک باد دیتی تھی اور بیٹی کی ولادت کی بجائے اس کی وفات پر مبارک باد دیتی تھیں۔‘‘]
[1] تحفۃ المودود في أحکام المولود ، ص ۳۲۔
[2] المرجع السابق ، ص ۳۴۔