کتاب: بیٹی کی شان وعظمت - صفحہ 107
ا: اپنے فرمان کی ابتدا {یُوْصِیْکُمُ اللّٰہُ}[اللہ تعالیٰ تمہیں وصیت فرماتے ہیں] سے کی۔ ب: تقسیمِ وراثت میں اللہ تعالیٰ نے بیٹی کے حصہ کو معیار ٹھہراتے ہوئے فرمایا، کہ ایک بیٹے کے لئے دو بیٹیوں کے برابر حصہ ہے۔ ج: وراثت کی تقسیم کے احکام بیان کرنے کے بعد فرمایا، کہ تمہیں خبر نہیں، کہ تمہارے وارثوں میں سے تمہارے لیے زیادہ نفع والا کون ہے؟ اسی لیے اس بارے میں تمہاری دخل اندازی درست نہیں۔ د: پھر فرمایا: {فَرِیْضَۃً مِّنَ اللّٰہِ} کہ وراثت کی تقسیم اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ ہے، لہٰذا اس میں کسی کی رائے کو کچھ دخل نہیں۔ ہ: اللہ تعالیٰ نے عورتوں کا وراثت میں حق جداگانہ طور پر بیان فرمایا، تاکہ یہ بات واضح ہوجائے، کہ وہ ذاتی حیثیت سے وراثت کا استحقاق رکھتی ہیں۔ و: انہیں ترکہ کی ہر چیز میں، خواہ وہ تھوڑی ہو یا زیادہ وارث ٹھہرایا، تاکہ کسی بھی مال کو بعض ورثاء کے ساتھ مخصوص نہ کیا جائے۔ ز: آیت کریمہ کے آخر میں {نَصِيبًا مَفْرُوضًا} فرما کر واضح کیا، وراثت میں حصوں کی تعیین اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہے، بندوں کا اس میں کوئی دخل نہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وراثت میں بیٹی کے حصہ کی حفاظت کی خاطر ایک تہائی سے زیادہ کی وصیت کرنے کی اجازت نہ دی۔ وراثت میں بیٹے کا حصہ بیٹی کے مقابلے میں دگنا ہونے کا سبب بیٹے پر خود اپنے آپ پر اوراہل و عیال پر خرچ کرنے کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ بیٹی پر کسی پر خرچ