کتاب: بیٹی کی شان وعظمت - صفحہ 106
طرف سے اس کی مرضی کے بغیر کئے ہوئے نکاح کے ختم کرنے کا بیٹی کو اختیار حاصل ہوتا ہے، چاہے وہ بیوہ ہو یا دو شیزہ۔ بیٹی کی موافقت رشتہ کا معاملہ طے کرنے سے پہلے لینی چاہیے ، نیز دوشیزہ کو آگاہ کرنا چاہیے ، کہ اس کی خاموشی کو اس کی رضا مندی تصور کیا جائے گا۔ اسی طرح باپ یا ولی کے بغیر بیٹی کا کیا ہوا نکاح بھی باطل ہے، خواہ وہ بیٹی بیوہ ہو یا دو شیزہ۔ شرطِ ولی کے نکاح میں رکاوٹ بننے کو روکنے کے لیے اسلامی شریعت میں متعدد تدبیریں ہیں۔ انہی میں سے ولی کے نہ ہونے کی صورت میں حاکم کا ولی ہونا، ولی اور سلطان دونوں کے نہ ہونے کے وقت عادل شخص کا نکاح کروانا، بے رابطہ غائب، گم شدہ، قیدی اور نا اہل اولیاء کی ولایت کا دوسروں کو منتقل ہونا، باہمی تنازعہ کرنے والوں کی ولایت کا حاکم کو منتقل ہونا اور بے جاحمیت اور ذاتی مصلحت کی بنا پر نکاح میں رکاوٹ بننے کی ممانعت شامل ہیں۔ ۱۰: ہدیہ میں ساری اولاد کا حصہ برابر ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں ان کے درمیان عدمِ مساوات کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ظلم، نادرست اور خلافِ حق قرار دیا ہے۔ ہدیہ میں بیٹی کے بیٹے کے برابر حصہ کے متعلق علماء کے اختلاف کے باوجود اس بارے میں صحیح تر بات یہی ہے، کہ ان کے درمیان برابری کو برقرار رکھنا فرض ہے۔ علاوہ ازیں درست رائے یہ ہے، کہ ہدیہ میں بیٹی اور بیٹے کا حصہ وراثت کی تقسیم کے مطابق نہیں، بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق برابر برابر ہوتا ہے۔ ۱۱: بیٹوں کی طرح بیٹی کا بھی وراثت میں حصہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس بارے میں آیات شریفہ نازل فرمائیں۔ اور ان میں اپنے بیان کردہ احکامات کی تاکید متعدد باتوں سے کی، جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں: