کتاب: بہترین زادِ راہ تقویٰ - صفحہ 21
کیا حشر ہوگا؟
(۸) سیدنا عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کے بارے تاریخ میں ملتا ہے کہ وہ جب تک سرکاری کام میں مشغول ہوتے تو سرکاری چراغ جلاتے۔ جب وہ اپنا کوئی ذاتی کام کرتے تو فوراً سرکاری چراغ بجھا دیتے۔ احیاء العلوم میں حکایت درج ہے کہ حضرت علی بن معبد فرماتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ کرائے کے مکان میں رہتا تھا۔ ایک مرتبہ میں نے خط لکھا اور چاہا کہ دیوار کی مٹی لے کر اس کو خشک کر لوں پھر سوچا کہ دیوار میری ملکیت نہیں پھر خیال کیا کہ دیوار سے اتنی مٹی لینے میں کیا حرج ہے۔ لہٰذا تھوڑی سی مٹی کھرچ کر میں نے اس تحریر پر ڈال لی۔ رات کو میں نے خواب دیکھا کہ ایک صاحب فرما رہے ہیں کہ قیامت کے دن معلوم ہو جائے گا کہ ذرا سی مٹی میں کیا حرج ہے؟
ایسے ہی لوگ آخرت میں کامیاب ہوں گے جو حرام سے بچنے والے اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے والے ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: [فَمَنِ اتَّقٰى وَاَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُوْنَ 35][1]
(جس نے تقویٰ اختیار کیا اور اصلاح کی تو ان پر کوئی خوف نہ ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔)
(۹) ہمارے دادا مرحوم نورِ الٰہی رحمۃ اللہ علیہ کے چھوٹے بھائی حافظ عبدالحئی رحمۃ اللہ علیہ حافظ قرآن تھے۔ متقی اور صالح بزرگ تھے۔ نوے سال کے لگ بھگ عمر پائی۔ ساری عمر کتاب و سنت کی دعوت اور تبلیغ میں بسر کی۔ رزق حلال کا اس قدر خیال رکھتے کہ ایک دفعہ لاہور سے اپنے گاؤں منڈی واربرٹن ضلع شیخوپورہ آرہے تھے جیب میں پیسے نہیں تھے۔ ٹرین میں بیٹھ کر منڈی وار برٹن پہنچ گئے۔ سٹیشن پر ہی کسی سے پیسے ادھار لیے اور منڈی واربرٹن سے لاہور کا ٹکٹ خرید کر پھاڑ دیا تاکہ حکومت کے خزانے میں رقم جمع ہو جائے۔ قرآن مجید کی تلاوت سے اس قدر شغف تھا کہ کہیں جاناہوتا تو پیدل سفر کو سواری پر صرف اس لیے ترجیح دیتے کہ پیدل سفر میں تلاوت زیادہ ہو جاتی ہے۔ ان کی تدفین کے وقت قبر سے ایسی تیز خوشبو آئی کہ تمام افراد کے دل و دماغ معطر ہو گئے۔ بعض لوگوں کا گمان یہ تھا کہ شاید کسی نے قبر میں
[1] الاعراف : ۳۵