کتاب: بہترین زادِ راہ تقویٰ - صفحہ 19
زیادہ ڈرتے تھے۔ فرمایا کرتے تھے۔ کاش میں ایک درخت ہوتا جو کاٹ دیا جاتا۔ کبھی فرماتے۔ اے کاش! میں سبزہ ہوتا اور چار پائے مجھے چر لیتے۔ ایک روز درخت کے سائے میں ایک چڑیا کو اچھلتے کودتے دیکھا تو ٹھنڈی سانس بھر کر فرمایا۔ اے چڑیا! تو کس قدر خوش نصیب ہے۔ درختوں کے پھل کھاتی ہے اور ٹھنڈی چھاؤں میں رہتی ہے۔ پھر موت کے بعد تو وہاں جائے گی جہاں تجھ سے کچھ باز پرس نہ ہوگی۔
سیدنا ربیعہ اسلمی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ۔ ایک مرتبہ مجھ میں اور سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ میں کچھ تکرار ہوگئی۔ آپ رضی اللہ عنہ نے مجھے سخت الفاظ کہہ دئیے جو مجھے ناگوار گزرے۔ کچھ دیر بعد فرمانے لگے۔ ربیعہ رضی اللہ عنہ ! تو بھی مجھے ویسا ہی کہہ لے تاکہ بدلہ ہو جائے ۔ میں نے انکار کیا تو فرمانے لگے۔ کہہ لو ورنہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کر دوں گا۔ میں نے پھر انکار کر دیا تو اٹھ کر چلے گئے۔ اسی اثنا میں بنو اسلم کے کچھ لوگ آگئے اور کہنے لگے یہ بڑی عجیب بات ہے۔ خود ہی زیادتی کی اور خود ہی شکایت کرتے ہیں۔ میں نے بنو اسلم کے لوگوں سے کہا۔ جانتے ہو یہ کون ہیں؟ یہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں۔ اگر یہ ناراض ہو گئے تو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ناراض ہو جائیں گے۔ اگر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہو گئے تو اللہ تعالیٰ ناراض ہو جائیں گے تو ایسے میں کیا ربیعہ نہ ہلاک ہو جائے گا۔ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ دنیا میں ہی کہے سنے کا حساب چکانا چاہتے تھے۔ تاکہ قیامت کے دن باز پرس نہ ہو۔ یہ تھا اس ہستی کا خوف خدا جس کے بارے میں سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری وقت میں فرمایا تھا۔ میں سب کے احسانات کا بدلہ دے چکا ہوں۔ لیکن صدیق رضی اللہ عنہ کے احسانات کا بدلہ دنیا میں نہیں دے سکا۔ اس کے احسانا ت کا بدلہ اللہ تعالیٰ ہی عطا کریں گے۔
سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ پر بھی خشیّت الٰہی کا یہ اثر تھا کہ آپ رضی اللہ عنہ فرماتے کاش میں ایک درخت ہوتا جو کاٹ دیا جاتا۔
مفسر قرآن سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ اللہ تعالیٰ کے خوف سے اس قدر روتے کہ آنسوؤں کے ہر وقت بہنے سے دو نالیاں سی بن گئی تھیں۔
(۴) سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا مشہور واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ آپ رضی اللہ عنہ کو دودھ پلایا گیا تو