کتاب: بہترین زادِ راہ تقویٰ - صفحہ 17
کے وقت بلال رضی اللہ عنہ سے فرمایا۔ اے بلال رضی اللہ عنہ ! میرے سامنے اپنا وہ عمل بیان کر جو تو نے اسلام میں کیا اور جس پر تجھے ثواب کی بہت زیادہ امید ہے۔ کیونکہ میں نے اپنے آگے جنت میں تیری جوتیوں کی آواز سنی ہے۔ بلال رضی اللہ عنہ نے عرض کیا۔ میرے نزدیک جس عمل پر مجھے (ثواب کی) بہت زیادہ امید ہے وہ یہ ہے کہ میں نے ر ات یا دن میں جب بھی وضو کیا تو اس وضو کے ساتھ جس قدر نفل نماز میرے مقدر میں تھی ضرور پڑھی۔ (بخاری‘ کتاب التہجد‘ مسلم۔ باب من فضائل بلال) اس سے مراد ہر وضو کے بعد دو رکعت نفل نماز یعنی تحیۃ الوضو ہے۔ اس کے مقابلے میں ابو لہب‘ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حقیقی چچا‘ ابو جہل اور دوسرے قریبی رشتہ دار تھے۔ ان کے پاس مال و دولت کی کمی نہ تھی۔ انہیں حکومت واقتدار بھی حاصل تھا۔ وہ بڑے بااثر اور معزز کہلاتے تھے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کی ذرا بھی قدر و منزلت نہ تھی۔ چنانچہ دنیا میں ان کا عبرتناک انجام ہوا اور آخرت میں بھی ذلت و رسوائی ان کا مقدر ہوگی۔ جس کے اعمال اچھے نہ ہوں۔ خوف خدا نہ ہو تو وہ خائب و خاسر ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے کا ذکر کیا جس کے اعمال غیر صالح تھے۔ سیدنا نوح علیہ السلام اور سیدنا لوط علیہ السلام کی بیویوں کا تذکرہ کیا جنہوں نے رب کی اور رسول کی نافرمانی کی۔ یہ دونوں عورتیں دو نبیوں کے نکاح میں تھیں۔ ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے والی تھیں۔ مگر ایمان اور عمل صالح نہ ہونے کی وجہ سے جہنم میں داخل ہوئیں۔ اس کے برعکس خوف خدا رکھنے والی ایک بزرگ عورت آسیہ زوجہ فرعون جنت الفردوس میں داخل ہوئی۔ سچ ہے اللہ تعالیٰ شکل و صورت اور مال و دولت کو نہیں دیکھتا بلکہ تقویٰ اور عمل صالح کو ہی دیکھتا ہے۔ جو بھی ان خوبیوں سے متصف ہو گا وہی خدا کے ہاں عزت والا اور محبوب ہے۔ انسان جھوٹی اور مصنوعی عزت حاصل کرنے کے لیے طرح طرح کے جائز و ناجائز حربے اور ہتھکنڈے استعمال کرتا ہے۔ لیکن آخر کار ذلت و رسوائی سے دور چار ہو کر رہتا ہے۔ وقتی طور پر وہ کچھ مفادات حاصل کر لیتا ہے لیکن اصل حقیقت بہت جلد بے نقاب ہو