کتاب: بہترین زادِ راہ تقویٰ - صفحہ 16
ہے۔جب وہ اپنے آپ کو بہت بڑا سمجھتا اور دوسروں کو حقیر خیال کرتا ہے۔ اس موقعہ پر ارشاد ربانی کا مقصد ہے کہ انسان کا چھوٹا بڑا یا معزز یا حقیر ہونا ذات پات‘ خاندان و نسب‘ دولت و اقتدار کی وجہ سے نہیں ہوتا بلکہ قرآن کی رو سے جو شخص جس قدر نیک خصلت‘ مودب او رپرہیزگار ہو۔ اس قدر اللہ کے ہاں معززو محترم ہے۔ دولت و اقتدار آنی جانی چیز ہے۔ حسب و نسب کی حقیقت اس کے سوا کچھ نہیں کہ سب انسان آدم و حواکی اولاد ہیں۔ اسلام بنی نوع انسان کی مساوات کا علم بردار ہے۔
خطبہ حجۃ الوداع میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«اَلا لَافَضْل لِعَرْبِیٍ عَلٰی عَجَمِیٍّ وَلاَ لعجمی علی عربی ولا لاحمرَ علی اسودٍ ولا لِاَسْوَدٍ علٰی احمر اِلا بالتقوٰی»[1]
’’خبردار! کسی عربی کو عجمی پر ‘ کسی عجمی کو کسی عربی پر کسی سرخ کو کالے پر اور کسی کالے کو سرخ پر کوئی فضلیت نہیں۔ مگر تقویٰ کے ساتھ۔‘‘
کسی عربی کو عجمی پر‘ عجمی کو عربی پر‘ گورے کو کالے پر اور کالے کو گورے پر کوئی فضلیت نہیں۔ فضلیت کا معیار صرف خوف ِخدا ہے۔تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے بنے تھے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ ایک غلام اور افریقہ کے حبشی تھے ۔ کالا سیاہ رنگ اور موٹے موٹے ہونٹ۔ دنیاوی لحاظ سے انہیں کوئی عزت حاصل نہ تھی۔ لیکن اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک ان کا مرتبہ بہت زیادہ تھا۔ یہاں تک کہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ جیسے بلند شان صحابی انہیں ’’آقا‘‘ کہہ کر پکارتے تھے۔ انہیں وہ مقام حاصل ہوا جو دنیا کے بڑے بڑے شہنشاہ کو بھی حاصل نہیں ہو سکتا۔
اقبال کس کے عشق کا یہ فیضِ عام ہے
رومی فنا ہوا‘ حبشی کو دوام ہے
سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کی یہ عزت کیوں نہ ہو۔ بلال رضی اللہ عنہ وہ ہیں جن کے چلنے کی آواز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت میں سنی۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز فجر
[1] مسند احمد