کتاب: بہترین زادِ راہ تقویٰ - صفحہ 14
فی زمانہ ٹیلی ویژن کی مثال لے لیجیے۔ لوگ اسے آج کے وقت کی اہم ضرورت سمجھ کر خریدتے ہیں کہ اس سے تمام دنیا بالخصوص ملکی حالات کے بارے آگاہی ہوتی رہتی ہے۔ کوئی اس کو تفریح کی خاطر خریدتا ہے کہ جب جسمانی محنت یا دماغی کام کی وجہ سے تھکن ہو جائے تو اس کو دیکھنے سے فرحت کا احساس ہوتا ہے۔ دینی ذہن رکھنے والے لوگ اس لیے خریدتے ہیں کہ اس میں بڑے بڑے علمائے کرام کے درس‘ مذاکرے اور رمضان المبارک میں تراویح وغیرہ کے پروگرام آتے ہیں۔ مگر دوسری طرف اس کے گندے ڈرامے‘ موسیقی‘ عورتوں‘ مردوں کی مخلوط مجالس ہمارے قلب و ذہن پر جوبرے اثرات ڈالتے ہیں۔ ان کی طرف ہمارا دھیان ہی نہیں جاتا۔ ٹی وی ہمارے بچوں کو کس بری طرح متاثر کرتا ہے۔ اس کی مثال ایک شادی کے موقع پر دیکھنے میں آئی۔خطبہ نکاح شروع ہوا مبارک مبارک کی صدائیں آئیں۔ انڈین فلموں کی پیداوار ایک بچہ اپنے باپ سے پوچھنے لگا۔ پاپا! نکاح ہو گیا؟ ہاں بیٹے نکاح تو ہو گیا۔ باپ نے جواب دیا ۔ بچہ بولا پاپا! دولہا اور دلہن نے ابھی پھیرے تو لگائے نہیں (بشکریہ ماہ نامہ ’’علم و آگہی‘‘) اس لیے بعض لوگ اسے گھر میں رکھنا درست نہیں سمجھتے اور اس کے برعکس کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ اس کے بغیر گزارا ہی نہیں۔ جس چیز کے بارے میں شک ہو کہ وہ جائز ہے یا ناجائز تو ہمیشہ اس کے ناجائز پہلو ہی کو ترجیح دینا چاہیے۔ کیونکہ اس کو گھر میں نہ رکھنے سے کوئی گناہ یا نقصان نہیں ہو گاچاہے وہ جائز ہی ہو۔ لیکن اس کو دیکھنا اگر ناجائز ہے تو گناہ لازماً ہو گا۔ جو اللہ کا خوف رکھنے والا ہو گا اس کے دل میں تقویٰ ہو گا تو کبھی اس کے قریب بھی نہ پھٹکے گا۔ اس کی دلیل قرآن مجید کی یہ آیت ہے: ﴿ يَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْخَــمْرِ وَالْمَيْسِرِ ۭ قُلْ فِيْهِمَآ اِثْمٌ كَبِيْرٌ وَّمَنَافِعُ لِلنَّاسِ ۡ وَاِثْـمُهُمَآ اَكْبَرُ مِنْ نَّفْعِهِمَا ﴾[1] ’’وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے شراب اور جوئے کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے کہہ دیں کہ ان دونوں کاموں میں بڑا گناہ ہے اور لوگوں کے لیے کچھ فائدے بھی ہیں۔ ان کا گناہ ان کے فائدے کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔‘‘
[1] البقرة:۲۱۹