کتاب: بہترین زادِ راہ تقویٰ - صفحہ 13
«مُضْغَةً اِذَا صَلُحَتَ صَلُحَ الْجَسَدُ کُلُّه وَاِذَا فَسَدَتَ فَسَدَ الْجَسَدُ کُلُّه اَلاَ وَهِیَ الْقلبُ»[1] (جس میں دوسروں کے جانور چرنے کی اجازت نہیں۔ )سن لو! اللہ تعالیٰ کی چراگاہ اس کی حرام کردہ چیزیں ہیں۔ خبردار! جسم میں گوشت کا ایک لوتھڑا ہے۔ جب وہ درست رہا تو سارا جسم درست رہا۔ جب وہ خراب ہو گیا تو سارا جسم خراب ہو گیا۔ سن لو! وہ دل ہے۔ ‘‘ ارشاد ربانی ہے: [تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ فَلَا تَقْرَبُوْھَا ۭ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ اٰيٰتِهٖ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُوْنَ ١٨٧؁][2] ’’یہ اللہ کی حدیں ہیں۔ ان کے قریب مت جاؤ۔ اس طرح اللہ لوگوں کے لیے اپنی آیات بیان کرتے ہیں۔ تاکہ وہ (گناہ سے) بچ جائیں۔‘‘ یعنی دل میں تقویٰ اور ڈر ہونا چاہیے۔ جو اللہ کے خوف سے حرام اور شک والی چیزوں کو چھوڑ دے تو وہ صالح انسان ہے۔ اگر بے خوف ہو کر حرام اور شبہ والی چیزوں کو بھی استعمال کرتا رہے تو آخرت کی کامیابی ممکن نہیں ہے۔ اصل تقویٰ یہ ہے کہ انسان شک و شبہ والی چیزوں کو بھی چھوڑ دے جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «دَعْ مَایُرِیْبَكَ اِلٰی مَالَا یُرِیْبَكَ»[3] ’’شک والی چیزوں کو چھوڑ کر وہ کام کر جس میں شک و شبہ نہ ہو۔‘‘ لہٰذا جو چیز واضح طور پر حلال ہے اس کو ہی اختیار کرنا چاہیے۔ جو چیز واضح طور پر حرام ہے اس کو غیر اضطراری حالت میں اختیار کرنے کی رخصت نہیں ہے۔ علاوہ ازیں واضح حلال اور واضح حرام کے درمیان ایک دائرہ مشتبہات کا بھی ہے ایسے امور میں لوگ التباس محسوس کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ کبھی تو دلائل ہی غیر واضح ہوتے ہیں۔ اور کبھی نص کو پیش آمدہ واقعہ پر منطبق کرنا سخت الجھن کا باعث بن جاتا ہے۔ اس قسم کے مشتبہ امور سے بچنے کا نام ہی تقویٰ ہے۔ یہی انسان کی صحیح انداز میں تربیت کرتا ہے۔ ورنہ اس بات کا اندیشہ ہوتا ہے کہ آدمی مشتبہات میں پڑ کر حرام کا ارتکاب نہ کر بیٹھے۔
[1] بخاری ۔کتاب البیوع۔مسلم۔ ترمذی [2] البقرة:۱۸۷ [3] ترمذی