کتاب: بہترین زادِ راہ تقویٰ - صفحہ 12
والی راہ پر چلنے والا انسان کانٹوں سے ڈرتاہے۔ چھوٹے گناہ کو بھی ہلکا نہ جانو۔ دیکھو پہاڑ کنکریوں سے ہی بنتے ہیں۔‘‘
تقویٰ کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز سے بچانا ہے جس سے نقصان کا اندیشہ ہو کبھی کبھی یہ لفظ خوف کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔شرعی اصطلاح میں نفس کو ہر اس چیز سے بچانا ہے جو گناہ کا سبب بنے۔
تقویٰ ایک شعور اور جذبے کا نام ہے جس میں انسان کسی بھی گناہ حتیٰ کے شک و شبہ والی چیز کے قریب بھی نہیں پھٹکتا۔ اگر غلطی سے وہ کوئی ایسا کام کر لیتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کے سامنے بار بار توبہ و استغفار کرتا رہتا ہے۔
ماحصل: تقویٰ کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ کی اطاعت کر کے اور گناہوں سے اجتناب کر کے اللہ کے غصے اور ناراضگی سے بچنا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«التقوٰیٰ هٰهُنا و اَشَارَ اِلٰی صَدْرِه»[1]
’’آپ نے اپنے سینے کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ تقویٰ یہاں ہے۔‘‘
جیسے احادیث میں سیدنا ماعز رضی اللہ عنہ بن مالک اسلمی اور غامدی عورت کا واقعہ مذکور ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«الحلال بیّن والحرام بیّن و بینهما مشتبهاتٌ لا یعلمها کثیر من الناس. فَمَنِ اتّقی الشبهات استبرأدینه وعرضه ومن وقع فی الشبهات کراعٍ یرعٰی حول الحِمٰی یُوْشِكُ ان یواقعه اَلاَ وَاِنَّ لِکُلِّ ملكٍ حمی اَلاَ وَاِنَّ حِمَی اللّٰهِ مَحَارِمُه اَلاَ وَاِنَّ فِی الْجَسَدِ »
’’حلال ظاہر ہے اور حرام بھی ظاہر ہے۔ اس حلال و حرام کے بیچ کچھ شبہ والی چیزیں ہیں۔ جن کو بہت سے لوگ جانتے نہیں کہ وہ حلال ہیں یا حرام۔ جو شک او رشبہ والی چیزوں سے بچا اس نے اپنے دین اور عزت کو بچا لیا۔ جو ان شبہ والی چیزوں میں پڑ گیا۔ اس کی مثال اس چرواہے جیسی ہے۔ جو شاہی چراگاہ کے پاس اپنے جانور کو چرائے۔ قریب ہے کہ کوئی جانور اس میں گھس جائے۔ خبردار! ہر بادشاہ کی ایک مخصوص چراگاہ ہے۔ ‘‘
[1] مسلم