کتاب: بہترین زادِ راہ تقویٰ - صفحہ 113
تو مجنوں تو نہیں؟ وہ کہنے لگا۔ نہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا۔ تیرا نکاح ہو چکا ہے۔ اس نے کہا۔ جی ہاں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا۔ نکاح کے بعد صحبت کرچکا ہے۔ اس نے کہا جی ہاں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا۔ شاید تونے بوسہ لیا ہوگا یا چھیڑ چھاڑ کی ہوگی یا نظر بد ڈالی ہوگی؟ اس نے کہا۔ نہیں یار سول اللہ !پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف صاف ننگے لفظوں میں پوچھا۔ کیا تونے دخول کیا تھا؟ اس نے کہا۔ جی ہاں۔ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے کہا اس کو لے جاؤ اور رجم کردو[1]۔ (5) سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ اپنے دورِ خلافت میں رات کو مدینہ کی گلیوں میں گشت کیا کرتے تھے تاکہ کوئی چوری چکاری نہ ہو۔ اگر کوئی پریشان حال‘ مصیبت زدہ ہو تو اس کی مدد کی جائے۔ وہ بجا طور پر یہ سمجھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے ان کے امور کا نگران بنایا ہے تو ان کا کوئی حق تلف نہ ہو۔ کوئی ان کے ساتھ ظلم و زیادتی نہ کرے۔ کوئی رات کو اپنی غربت و افلاس کی وجہ سے بھوکا نہ سوئے۔ ایک رات دورانِ گشت کسی گھر سے وہ درجِ ذیل مکالمہ سنتے ہیں: ماں: بیٹی! جلدی سے دودھ میں کچھ پانی ملا دو۔ ابھی صبح ہونے والی ہے۔ بیٹی: امی جان! دودھ میں پانی ملانے سے تو امیرا لمومنین عمر رضی اللہ عنہ منع کرتے ہیں۔ ماں: عمر رضی اللہ عنہ کونسا یہاں دیکھ رہے ہیں تم جلدی کرو جو میں کہہ رہی ہوں۔ بیٹی: امی! عمر رضی اللہ عنہ تو نہیں دیکھ رہے مگر اللہ تعالیٰ تو دیکھ رہے ہیں۔ ماں میں دودھ میں پانی نہیں ملاؤں گی۔ یہ بہت بڑا گناہ ہے۔ اس لڑکی کو یہ شعور اور احساس کس نے دیا کہ وہ یہ گناہ کا کام نہ کرے۔ یقینا اللہ تعالیٰ نے جو سمیع و بصیر ہے۔ یہ اللہ کا خوف اور تقویٰ ہی تھا جس نے لڑکی کو اس غلط کام سے روکے رکھا۔ کتب تاریخ میں ملتا ہے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ لڑکی کی اس سوچ اور فکر کی وجہ سے اتنے خوش ہوئے کہ بعد میں رابطہ کرکے اس لڑکی کو اپنی بہو بنا لیتے ہیں۔ قارئین! ذرا چوتھے اور پانچویں واقعے کو دوبارہ بغور پڑھیں۔ مذکورہ غامدی عورت
[1] بخاری۔ مسلم