کتاب: بہترین زادِ راہ تقویٰ - صفحہ 110
کے عذابوں کا خیال آرہا ہے۔ اس کام کو ہمارے خالق نے حرام قرار دیا ہے۔ میں بھی اپنی ضرورت سے مجبور ہو کر اس برے کام کے لیے تیار ہو گئی۔اب اللہ کا خوف مجھے بے چین کیے دیتا ہے۔ ہائے آج دو گھڑی کا لطف مستقل جان کا روگ بن جائے گا۔ اے کفل اللہ کے لیے اس بدکاری سے باز آجا۔ اپنی اور میری جان پر رحم کر۔ آخر اللہ کو بھی حساب دینا ہے۔
اس لڑکی کی ایسی پر تاثیر اور سچی باتوں نے کفل پر گہرا اثر ڈالا۔ اپنے برے ارادے پر نادم اور شرمندہ ہوا۔ عذاب الٰہی کی خوفناک شکلیں اس کی نظروں کے سامنے گھومنے لگیں۔ اور اپنی سیاہ کاریاں یاد کر کے رونے لگا۔ قبر کے سانپ‘ بچھو اس کی نظروں کے سامنے پھرنے لگے۔ اپنے دل میں سوچنے لگا کہ مجھے تو اللہ کے عذاب سے بہت زیادہ ڈرنا چاہیے۔ اس عورت نے ابھی گناہ کیا نہیں اور یہ اس طرح جہنم کے خوف سے کانپ رہی ہے۔ جبکہ میری تو ساری عمر ہی ایسے برے کاموں سے بھری ہوئی ہے۔ چنانچہ وہ کہنے لگا اے نیک عورت! گواہ رہ میں آج تیرے سامنے سچے دل سے توبہ کرتا ہوں کہ آئندہ اپنے رب کی ناراضگی کا کوئی کام نہ کروں گا۔ اللہ کی نافرمانی کا تصور بھی دل میں نہ لاؤں گا۔ میں نے وہ رقم بھی تمہیں اللہ واسطے دی۔ اس کے بعد اللہ کے حضور توبہ استغفار کی۔ یا الٰہی میرے گناہوں سے درگزر فرمایا۔میری خطائیں معاف کر دے۔ مجھے اپنے دامن عفو میں چھپا لے۔ مجھے جہنم کے عذاب سے نجات دے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اسی رات کفل کا انتقال ہوگیا۔ صبح لوگ دیکھتے ہیں کہ اس کے دروازے پر لکھا ہوا ہے۔ اِنَّ اللّٰهَ قَدْ غَفَر الْکِفل یعنی اللہ نے کفل کے گناہ معاف کر دئیے۔ (ترمذی)
اس واقعہ میں اس بے کس و مجبور عورت کا حال ملاحظہ فرمائیں۔ جس نے ابھی گناہ کیا نہیں مگر وہ بید مجنوں کی طرح کانپ رہی ہے۔ یہ اللہ کی نافرمانی سے بچنا اور عذاب کا خوف محض اللہ تعالیٰ کے ڈر اور تقویٰ کی وجہ سے ہے۔ ارشادِ ربانی ہے: