کتاب: بہترین زادِ راہ تقویٰ - صفحہ 11
﴿ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُوْنَ ١٨٧؁﴾[1] ’’ تاکہ وہ پرہیز گاری اختیار کریں۔ ڈریں۔ بچیں۔‘‘ اتّقٰی کے معنی برے کام کے انجام سے ڈر کر ان برے کاموں اور ان کے عقوبت سے بچانا۔ (مفردات القرآن) ارشاد ہے: ﴿ يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَكُمْ وَاَهْلِيْكُمْ نَارًا ﴾[2] ’’اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو آتش جہنم سے بچاؤ۔‘‘ اتْقٰی۔ کسی برے کام سے بچنے کے لیے برے کام اور اس کی سزا سے بچنا۔ پرہیز گاری اختیار کرنا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ خُذُوْا مَآ اٰتَيْنٰكُمْ بِقُوَّةٍ وَّاذْكُرُوْا مَا فِيْهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ 63۝﴾[3] ’’جو ہم نے تمہیں دیا ہے اس کو مضبوطی سے پکڑو اور جو کچھ اس میں ہے اس سے نصیحت حاصل کرو۔ تاکہ تم متقی بن جاؤ۔‘‘ ایک دفعہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا کعب احبار رضی اللہ عنہ سے تقویٰ کے بارے پوچھا۔ کعب احبار رضی اللہ عنہ کہنے لگے۔ کیا کبھی تمہارا کسی خار دار راستے سے گزر ہوا ہے۔ انہوں نے اثبات میں جواب دیا۔ کہنے لگے پھر کیسے گزرتے ہو۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرمانے لگے کہ میں اپنے کپڑے سمیٹ کر گزرتا ہوں کہ کہیں کوئی کانٹا میرے دامن میں الجھ کر کپڑوں کو تار تار نہ کر دے۔ سیدنا کعب رضی اللہ عنہ فرمانے لگے کہ یہی تقویٰ ہے کہ انسان اپنی زندگی کو ہر قسم کے گناہوں اور نافرمانیوں سے بچ کر گزارے۔ ایک عربی شاعر نے کیا خوب کہا ہے: خَلِّ الذُّنُوبَ صَغِیْرَهَا وَکَبِیْرَهَا ذَاك التُّقٰی وَاصْنَعْ کَمَاشٍ فَوْقَ اَرْضِ الشَوْكِ یَحْذُرُ مَایَرٰی لَا تَحْقِرَنَّ صَغِیْرَةً اِن الجبالَ من الحِصٰی ’’یعنی ہر چھوٹے اور بڑے گناہ کو چھوڑ دو۔ یہی تقویٰ ہے۔ ایسے رہو جیسے کانٹوں
[1] البقرة: ۱۸۷ [2] التحریم: ۶ [3] البقرة:۳ ۶