کتاب: برصغیر میں اہل حدیث کی اولیات - صفحہ 96
ہے۔ اس کا ترجمہ پڑھ کر مولانا ابو الکلام آزاد نے مولانا جونا گڑھی کو خط لکھا اور ترجمے کی تحسین فرمائی۔ مولانا جونا گڑھی کی محمدیات کو بھی بے حد پذیرائی حاصل ہوئی۔ یعنی نماز محمدی، صوم محمدی، حج محمدی، زکوٰۃ محمدی وغیرہ ان کی بہت سی تصانیف ہیں، جن کا لوگ بڑے شوق سے مطالعہ کرتے تھے۔ مولانا ممدوح اپنے زمانے کے کامیاب مناظر بھی تھے۔ اللہ نے بہت سے اوصاف ان کی ذات میں جمع فرما دیے تھے۔ متحدہ پنجاب کی سکھ ریاست پٹیالہ میں ایک قصبے کا نام ‘‘پائل‘‘ تھا۔ وہاں ایک ہندو کوٹے مل سکونت پذیر تھا۔ اس کا بیٹا اننت رام چھوٹی عمر میں اسلام کی طرف مائل ہوگیا تھا۔ پھر جیسے جیسے عمر بڑھتی گئی، اس کا دل اسلام کے قریب ہوتا گیا۔ اب اس نے ہندو پنڈتوں، سکھ مذہب کے گیانیوں، عیسائی پادریوں اور مسلمان عالموں سے ان کے مذاہب کے بارے میں سوال کرنا شروع کیے اور مختلف مذاہب کی کتابوں کے مطالعہ کو اپنا معمول قرار دے لیا۔ وہ چوں کہ ہندو تھا، اس لیے ہندو مذہب کا مطالعہ بے حد گہری نظر سے کیا۔ اس مذہب کے متعلق اسے ایسی ایسی باتوں کا پتا چلا جو نہایت عجیب وغریب ہیں۔ ہندو دیوتاؤں اور دیویوں کے متعلق اسے جو معلومات حاصل ہوئیں، وہ بے حد حیران کن تھیں اور عقل وفکر سے ان کا کوئی تعلق نہ تھا۔وہ شخص ستمبر 1848ء (1264ھ) کو عیدالفطر کے روز مالیر کوٹلہ میں (جو متحدہ پنجاب کی مسلمان ریاست کا دارالحکومت تھا) مسلمان ہوگیا۔ اپنے اسلام کا اعلان اس نے مسلمانوں کے مجمع عام (عیدگاہ) میں کیا اور خود ہی اپنا نام عبیداللہ رکھا۔ بہت جلد لائق اساتذہ سے اس نے تمام دینی علوم پڑھ لیے اور مولانا عبیداللہ مالیر کوٹلوی