کتاب: برصغیر میں اہل حدیث کی اولیات - صفحہ 94
نے ایک بہت بڑے برطانوی پادری سے مناظرہ کیا جس کا نام ’’اسکاٹ‘‘ تھا۔ مولانا کے دلائل سے پادری بہت متاثر ہوا اور اس نے ان کے تبحر علمی کا اعتراف کیا۔ مولانا سے ملاقات کے لیے اس کی سہسوان آمدورفت بھی رہی۔ وہ اپنے وطن لندن چلاگیا تھا۔ مولانا کی وفات 1291ھ (1874ء) کو ہوئی۔ پادری اسکاٹ کو ان کی وفات کا علم ہوا تو وہاں کے اخباروں میں اس نے تعزیتی مضمون لکھا، جس میں ان کے علم وفضل کی وضاحت کی۔[1] مولانا عبدالباری سہسوانی بھی مناظروں میں بڑی شہرت رکھتے تھے۔ ان کا آگرہ میں پادری عمادالدین سے مناظرہ ہوا، لیکن پادری صاحب اندیشۂ فساد کا بہانہ بنا کر دوران مناظرہ میں میدان چھوڑ گئے۔ آگرہ کے علاوہ بھی متعدد مقامات کے پادریوں سے ان کی پنجہ آزمائی ہوئی، اللہ کے فضل سے ہر مناظرے میں فتح سے ہم کنار رہے۔ آگرہ میں ایک مرتبہ ایک ہندو مناظر اندرامن مراد آبادی مصنف کتاب ’’تحفۃ الاسلام‘‘ سے مناظرہ کیا۔ مولانا نے اسے مجمع عام میں شکست دی۔ یہ بھی ثابت کیا کہ یہ کتاب اس ہندو کی تصنیف نہیں ہے۔[2] مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی کا تذکرہ سیاسیات کے باب میں ’’جماعت مجاہدین کے بعض معاونین‘‘ کے ذیلی عنوان کے تحت کیا گیا ہے۔ وہ حضرت میاں سید نذیر حسین دہلوی کے شاگرد تھے۔ جلیل المرتبت عالم، نامور محقق، ممتاز مدرس اور منجھے ہوئے مناظر تھے۔ انھوں نے مولانا شبلی نعمانی کی تصنیف ’’سیرۃ النعمان‘‘ کے جواب میں ’’حسن البیان فیما في سیرۃ النعمان‘‘ کے نام سے کتاب لکھی، جس میں مولانا شبلی کی تاریخی غلطیوں کی نشان دہی کی۔ ’’سیرۃ النعمان‘‘
[1] تذکرۃ المناظرین حصہ اول (مرتب مولانا محمد مقتدیٰ اثری عمری) (ص: 118تا 120) [2] تذکرۃ المناظرین حصہ اول (مرتب مولانا محمد مقتدیٰ اثری عمری) (ص: 121تا 125)