کتاب: برصغیر میں اہل حدیث کی اولیات - صفحہ 85
میں حاضر ہوئے اور کہا کہ وہ قاضی کی بات مان لیں اور جیل سے باہر آجائیں۔ شیخ نے ان کو جواب دیا کہ جو بات صحیح حدیث سے ثابت نہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی نہیں، میں اسے ہرگز نہیں مانوں گا، اور جو عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، اسے کسی صورت میں نہیں چھوڑوں گا۔ یہ بات انھوں نے قسم کھا کر کہی۔ اس کے بعد اہل مدینہ پھر قاضی کے پاس گئے اور پُرزور الفاظ میں شیخ کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ قاضی نے قسم اٹھا کر کہا کہ اگر میں نے ان کو نماز میں سینے پر ہاتھ باندھے ہوئے دیکھ لیا تو دوبارہ جیل بھیج دوں گا۔ اہل مدینہ نے شیخ سے عرض کیا کہ ایک کپڑا لے کر پشت پر اوڑھ لیں اور اس کو دونوں طرف سے دونوں کندھوں پر ڈال لیں۔ اس کے نیچے سینے پر بھی ہاتھ باندھ لیا کریں اور رفع الیدین بھی کریں۔ شیخ نے یہ تجویز منظور فرمائی۔ اس واقعہ کے تھوڑے عرصے بعد قاضی وفات پاگیا اور شیخ نے دوبارہ پہلے کی طرح کھلے بندوں سینے پر ہاتھ باندھنا اور رفع الیدین کرنا شروع کر دیا۔ بہرحال شیخ ابوالحسن سندھی کبیر بہت بڑے محدث اور عامل بالحدیث عالم تھے۔ ان کا سلسلۂ درسِ حدیث بہت وسیع تھا جو مسجد نبوی میں جاری تھا۔ بے شمار علماو طلبا نے ان سے استفادہ کیا۔ واقعات سے اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے اپنے پیچھے کوئی نرینہ اولاد نہیں چھوڑی۔ ان کی وصیت کے مطابق ان کے شاگرد رشید شیخ محمد حیات سندھی رحمہ اللہ ان کے جانشین ہوئے، جو تقلید شخصی کے خلاف اور متبع کتاب وسنت تھے۔ تذکرہ ورجال کی کتابوں میں ارضِ سندھ کے اس جلیل القدر محدث کو شیخ ابوالحسن سندھی کبیر لکھا جاتا ہے، اس لیے کہ شیخ ابوالحسن دو تھے اور دونوں سندھی تھے۔ دونوں نے مدینہ منورہ میں سکونت اختیار کرلی تھی۔ امتیاز کے لیے ایک کو شیخ ابوالحسن سندھی صغیر کہا جاتا ہے، ان کی تاریخ وفات 25۔رمضان 1187ھ (10۔دسمبر1773ء) ہے۔ مقامِ وفات مدینہ منورہ ہے۔