کتاب: برصغیر میں اہل حدیث کی اولیات - صفحہ 84
ابوالحسن ان کے فقہی مذہب سے کوئی تعلق نہیں رکھتے۔ بعض مسائل کا ذکر کر کے کہا کہ وہ ان مسائل میں ائمہ احناف کے مخالف ہیں۔ قاضی نے اپنے طور پر شیخ ابوالحسن کے حالات اور فقہی نظریات کے بارے میں معلومات فراہم کیں تو انھیں پتا چلا کہ شیخ ابوالحسن تمام علومِ متداولہ میں درجۂ امامت پر فائز ہیں اور مختلف فنون میں ماہر کامل ہیں۔ ان پر یہ حقیقت بھی منکشف ہوئی کہ اہل مدینہ میں سے بے شمار لوگ شیخ ابوالحسن کے شاگرد ہیں اور انھیں انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اس کے بعد قاضی مذکور شیخ ابوالحسن سے نہایت احترام کے ساتھ پیش آئے، اپنے لیے دعا کی درخواست کی اور عزت کے ساتھ ان سے ہم کلام ہوئے۔ شیخ ابوالطیب سندھی نے یہ عادت بنالی تھی کہ جو قاضی بھی مدینہ منورہ آتا، اس کے پاس جاتے اور شیخ ابوالحسن کی شکایت کرتے، لیکن کوئی قاضی بھی انھیں کچھ نہ کہتا۔ ہر قاضی انھیں اپنے ہاں بلاتا اور ان سے گفتگو کرتا تو ان کے علم اور نیکی سے اس قدر متاثر ہوتا کہ احترام کے ساتھ رخصت کرتا۔ ایک مرتبہ ایک متعصب قاضی وہاں آیا۔ شیخ ابوالطیب نے حسبِ معمول اس کے پاس شیخ ابوالحسن کی شکایت کی تو اس نے شیخ کو دربار میں طلب کیا اور نہایت سخت لہجے میں حکم دیا کہ نماز میں ناف کے نیچے ہاتھ باندھا کریں اور پہلی تکبیر کے سوا رفع الیدین نہ کیا کریں۔ شیخ نے جواب دیا: میں آپ کی یہ بات نہیں مانوں گا، وہی کروں گا، جو حدیث میں مذکور ہے اور اسی طرح نماز پڑھوں گا جس طرح خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھی یا پڑھنے کا حکم دیا۔ قاضی سخت مزاج اور متعصب تھا۔وہ شیخ ابو الحسن سے یہ صاف جواب سننے کو تیار نہ تھا۔ اس نے غصے میں شیخ کو جیل بھیج دیا اور ایسی تنگ کوٹھڑی میں محبوس کرنے کا حکم دیا جس میں ہر وقت تاریکی چھائی رہتی تھی۔ حوائج ضروریہ کے لیے بھی ان کو باہر نہیں نکالا جاتا تھا۔ شیخ چھ دن اس کال کوٹھڑی میں بند رہے۔ پھر اہل مدینہ شیخ کی خدمت