کتاب: برصغیر میں اہل حدیث کی اولیات - صفحہ 83
قابلِ اعتنا نہیں قرار دیتے تھے۔ جس زمانے میں شیخ ابوالحسن سندھی مدینہ منورہ میں مقیم تھے، اس زمانے میں ان کے ایک ہم وطن شیخ ابوالطیب سندھی بھی وہاں اقامت گزیں تھے۔ وہ بھی جلیل القدر عالم اور وسیع المطالعہ بزرگ تھے۔ جامع ترمذی کے شارح اور در مختار کے محشی تھے۔ مدینہ منورہ میں ان کا غلغلۂ درس بلند تھا۔ حکام وقت اور اربابِ اختیار کے درباروں میں انھیں رسائی حاصل تھی۔ مذہباً حنفی اور طریقتاً نقش بندی تھے۔ اپنے مسلک میں نہایت متشدد تھے۔ اختلافِ مسلک کی بنا پر شیخ ابوالحسن سندھی کبیر کے زبردست حریف تھے۔ ان کی وجہ سے شیخ ابوالحسن سندھی کو بارہا شدید ابتلاؤں سے گزرنا پڑا۔ شیخ محمد عابد سندھی نے اس دور کے بعض واقعات بیان کیے ہیں،جن میں دونوں کے درمیان وجہِ مخالفت کا اصل راز سامنے آجاتا ہے اور شیخ ابو الحسن کو اپنے ہم وطن وہم عصر حریف کے باعث جو تکلیفیں اٹھانا پڑیں، ان کی وضاحت ہوجاتی ہے۔ شیخ محمد عابد سندھی فرماتے ہیں: شیخ ابوالحسن سندھی عامل بالحدیث تھے۔ حدیث کے علاوہ کسی مذہب کی طرف عنانِ توجہ مبذول نہیں فرماتے تھے۔ رکوع سے پہلے اور رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے اور دو رکعتوں سے اٹھتے وقت رفع الیدین کرتے اور سینے پر ہاتھ باندھتے تھے۔ ان کے زمانے میں شیخ ابوالطیب سندھی جو حنفی المذہب تھے، اپنے مسلکِ فقہی سے قطعاً اِدھراُدھر نہیں ہوتے تھے۔ اس قسم کے مسائل میں شیخ ابوالحسن اور شیخ ابو الطیب سندھی کے درمیان مناظروں کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔ شیخ ابوالحسن متنازع فیہ مسائل میں اپنے دلائل بیان کرتے تو شیخ ابوالطیب ان کے جواب میں عاجز آجاتے۔ یہ مخاصمت ان دونوں میں ہمیشہ قائم رہی۔ ایک مرتبہ ترکی کے قضاۃِ احناف میں سے ایک شخص قاضی کی حیثیت سے مدینہ منورہ آئے تو شیخ ابوالطیب ان کے پاس گئے اور شکایت کی کہ شیخ