کتاب: برصغیر میں اہل حدیث کی اولیات - صفحہ 82
بیضاوی اور تفسیر جلالین پر حواشی تحریر فرمائے۔ قرآن مجید کی ایک مستقل تفسیر بھی لکھی۔ علم حدیث کے تمام پہلوؤں پر ان کی گہری نظر تھی۔ چنانچہ اس علم کی انھوں نے بے پناہ خدمت کی۔ یہ خدمت تدریس کی صورت میں بھی کی اور تحریر کی صورت میں بھی۔ ان کا یہ بہت بڑا علمی کارنامہ ہے کہ صحاح ستہ پر عربی میں حواشی لکھے۔ صحیح بخاری اور ابن ماجہ کا حاشیہ مصر میں طبع ہوا۔ نسائی کا حاشیہ ہندوستان میں چھپا۔ صحیح مسلم کا حاشیہ پاکستان کے ایک ممتاز اہل حدیث عالم حضرت مولانا عبدالتواب ملتانی مرحوم نے علاحدہ شکل میں شائع کیا۔ ابو داود کا غیر مطبوعہ حاشیہ سید احسان اللہ شاہ مرحوم (پیر جھنڈا) کے کتب خانے میں موجود ہے۔ ترمذی کا حاشیہ غالباً مکمل نہیں ہوسکا تھا۔مسند امام احمد پر بھی حاشیہ لکھا۔ شیخ ممدوح کو مسند امام ابوحنیفہ، ہدایہ اور فتح القدیر شرح ہدایہ پر بھی حواشی لکھنے کا شرف حاصل ہوا۔ ان کی بوقلموں خدمات علمیہ سے واضح ہوتا ہے کہ وہ بہ یک وقت بہت سی خوبیوں کے مالک تھے۔ مفسر قرآن، شارح حدیث، فقیہ نام دار، مدرس، مبلغ، محشی، مصنف، سب کچھ تھے اور اللہ تعالیٰ نے ان کو بے شمار کمالات سے نوازا تھا۔ شیخ ابوالحسن سندھی کے متعلق ان کے شاگرد شیخ محمد حیات سندھی لکھتے ہیں: ’’کان زاھداً متورعاً کثیر الاتباع لکتاب اللّٰه وسنۃ رسول اللّٰه صلي الله عليه وسلم‘‘ یعنی شیخ ابوالحسن عابد وزاہد اور متبع کتاب وسنت تھے۔ مولانا محمد عابد سندھی رقم طراز ہیں: ’’کان الشیخ عاملاً بالحدیث لا یعدل عنہ إلیٰ مذھب‘‘ کہ شیخ ابوالحسن حدیث پر عمل پیرا تھے۔ حدیث کے علاوہ کسی مذہب کو