کتاب: برصغیر میں اہل حدیث کی اولیات - صفحہ 75
ہوچکے تھے اور کالج میں داخلے کا مرحلہ درپیش تھا۔ لیکن اس وقت ان کے باب حیات پر بہت بڑے انقلاب نے دستک دی۔ انھیں مطالعے کا شوق تھا اور یہی شوق انھیں اسلام سے متعلق کتابوں کی طرف لے گیا اور وہ دائرۂ اسلام میں داخل ہوگئے۔ اس کے بعد حالات ایسے پیدا ہوئے کہ مدینہ منورہ پہنچ گئے اور پھر مدینہ یونیورسٹی تک رسائی حاصل ہوگئی۔ تحصیل علم کے بعد وہیں پڑھانے لگے۔ میری ان سے پہلی ملاقات 2000ء کے فروری میں مدینہ منورہ میں ہوئی تھی۔ انھوں نے مجھے اپنے مکان پر حاضر ہونے کی دعوت دی تھی۔ چند اور حضرات بھی تشریف فرما تھے۔ رات کا کھانا ہم نے وہیں کھایااور دیر تک گفتگو کا سلسلہ جاری رہا۔ مجھے یاد پڑتا ہے اس وقت وہ مدینہ یونیورسٹی کے ایک کالج کے پرنسپل تھے۔ اس سے آٹھ برس بعد ان سے 29۔جون 2008ء کو مدینہ منورہ ہی میں ملاقات ہوئی۔ اب بھی رات کا کھانا انہی کے ہاں کھایا، جس میں ڈاکٹر عبدالرحمن فریوائی اور مولانا عبدالمالک مجاہد بھی شامل تھے۔ یہ دونوں حضرات اس فقیر سے ملاقات کے لیے ریاض سے تشریف لائے تھے۔ یہ تو واپس ریاض چلے گئے۔ لیکن میں رات کو ڈاکٹر اعظمی صاحب کے پاس رہا اور ہم دونوں دیر تک باتیں کرتے رہے۔ اس وقت ڈاکٹر ضیاء الرحمن اعظمی حدیث سے متعلق ایسا کام کر رہے تھے جو اب تک کسی نے نہیں کیا۔ وہ ایک ایسا مجموعہ احادیث ترتیب دے رہے تھے جو تمام تر صحیح احادیث پر مشتمل ہوگا۔ اس مجموعے کا نام انھوں نے ’’الجامع الکامل في الحدیث الصحیح الشامل‘‘ تجویز فرمایا تھا۔ اور آخر جون 2001ء تک اس کی نو ضخیم جلدیں مرتب ہوچکی تھیں، جن میں ایمان، علم اور عبادات یعنی نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج سے متعلق تمام کتب احادیث سے چھان بین کر کے صحیح احادیث جمع کی گئی تھیں۔یہ سارا مواد انھوں نے مرتب صورت میں مجھے دکھایاتھا۔ ڈاکٹر صاحب کا