کتاب: برصغیر میں اہل حدیث کی اولیات - صفحہ 74
پاس کوئی نئی کتاب آتی اور انھیں اس کا پتا چل جاتا تو اسے ہر قیمت پر خریدنے کی کوشش کرتے۔ کتابوں سے یہی دلچسپی اور محبت ان کی موت کا باعث بنی۔ ایک روز دہلی کی جامع مسجد کے علاقے میں دارالحدیث رحمانیہ سے ایک کتاب خریدنے کے لیے گئے، کتاب خرید کر چاندنی چوک میں گھنٹا گھر کے قریب سڑک عبور کر رہے تھے کہ اچانک ایک تیز رفتار گھوڑا گاڑی آئی، جس پر کوئی سوار اور کوچوان نہیں تھا۔ گھوڑا جو تیزی سے دوڑ رہا تھا، مولانا عبدالسلام مبارک پوری کے اوپرسے گزر گیا اور وہ اسی وقت وفات پاگئے۔ وہ تازہ خریدی ہوئی کتاب ان کے ہاتھ میں تھی، جس کا سبز رنگ کا ٹائیٹل ان کے خون سے سرخ ہوگیا تھا۔ شنید ہے کہ یہ کتاب اپنے سبز (اور خون کے سرخ) رنگ کے ٹائیٹل کے ساتھ ان کے کتب خانے میں محفوظ ہے۔ یہ حادثہ 24۔فروری 1924ء (18۔رجب 1342ھ) کو پیش آیا۔ إنا للّٰه وإنا إلیہ راجعون۔ ڈاکٹر ضیاء الرحمن اعظمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ کی نشرواشاعت کا سلسلہ عہد نبوت سے جاری ہے اور ان شاء اللہ ہمیشہ جاری رہے گا۔ لوگ اپنے علم اور حالات کے مطابق تاقیامت اس کارِ خیر میں مصروف رہیں گے۔ موجودین خادمانِ حدیث کی وسیع فہرست میں ضلع اعظم گڑھ ہی کے ڈاکٹر ضیاء الرحمن اعظمی کا نامِ نامی بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب ممدوح 1943ء میں ہندوستان کے صوبہ یو پی ضلع اعظم گڑھ کے ایک قصبے میں پیدا ہوئے۔ ان کا گھرانا ہندوؤں کے آریہ مذہب سے تعلق رکھتا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے مڈل تک اپنے قصبے میں تعلیم حاصل کی۔ پھر اعظم گڑھ کے شبلی کالج میں داخلہ لیا، جس کے ساتھ ہائی کلاسوں کا بھی انتظام تھا۔ 1959ء میں انھوں نے اس کالج کے ہائی سکول میں میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ اب وہ سکول سے فارغ