کتاب: برصغیر میں اہل حدیث کی اولیات - صفحہ 54
حدیثِ رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنے ساتھ لے کر آئے تھے، جس کی انھوں نے یہاں تبلیغ کی اور اس سرزمین کے باشندے اس سے متاثر ہوئے۔ اس کے نتیجے میں بہت سے مقامات پر قال اللہ وقال الرسول کی دل نواز صدائیں گونجنے لگیں۔ لیکن اس زمانے میں آبادیوں کا یہ قرب واتصال نہ تھا جو بعد میں ہوا۔ انسانی آبادی کا دائرہ محدود تھا اور لوگ ایک دوسرے سے دور دراز مقامات پر رہتے تھے۔ نہ تحریر و کتابت کا کوئی قابل ذکر سلسلہ تھا، نہ اس وقت تصنیف وتالیف کا اس نواح میں کوئی رواج ہوا تھا، نہ مدارس وجامعات کا قیام عمل میں آیا تھا اور نہ مطابع کا کوئی تصور کہیں پایا جاتا تھا۔ پڑھنے پڑھانے اور حدیث کی تعلیم وتعلم کا دائرہ بہت محدود تھا، تاہم جو تھا وہ مؤثر تھا اور اس کے اثرات و آثار آہستہ آہستہ پھیلتے گئے۔ اشاعتِ حدیث کی لہر تیرھویں اور چودھویں صدی ہجری میں پوری دنیا میں ترقی کی لہر اٹھی اور پھر تعلیم کا رواج بھی عام ہوا۔ مدارس بھی وسیع تعداد میں جاری ہوئے، تصنیف وتالیف کے لیے بھی فضا ہم وار ہوئی، مطابع بھی قائم ہوئے اور کتابوں کی نشر و اشاعت بھی عام ہونے لگی۔ برصغیر کے لوگوں پر بھی اس کا اثر پڑا اور وہ اپنے اپنے انداز میں مصروفِ عمل ہوئے۔ اسی دور (بارھویں صدی ہجری) میں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی تبلیغی وتصنیفی مہمات نے شہرت پائی۔ پھر ان کے صاحب زادگانِ گرامی قدر (حضرت شاہ عبدالعزیز محدث، حضرت شاہ رفیع الدین اور حضرت شاہ عبدالقادر) اور ان کے شاگردوں کی تدریسی وتصنیفی خدمات کا ایک طویل سلسلہ چلا۔ مولانااسماعیل شہید، میاں سید نذیر حسین دہلوی، نواب سید صدیق حسن خاں، مولانا شمس الحق ڈیانوی عظیم آبادی، مولانا عبدالرحمن مبارک پوری، مولانا حافظ عبداللہ غازی پوری، مولانا ابو محمد ابراہیم آروی، حافظ محمد لکھوی، سید عبداللہ غزنوی، امام سید عبدالجبار غزنوی،