کتاب: برصغیر میں اہل حدیث کی اولیات - صفحہ 47
سندھی نظم میں قرآن مجید کا ترجمہ کیا۔ اس سے قبل سندھی نظم میں ترجمۂ قرآن کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ سندھی زبان کا یہ منظوم ترجمہ تیرہ سال کی مدت میں مکمل ہوا۔ اس کا نام انھوں نے ’’نور القرآن منظوم ترجمۃ القرآن‘‘ رکھا۔ یہ ترجمہ 1415ھ (1994ء) میں سعودی حکومت کی طرف سے شائع ہوا۔ سندھ میں مولانا احمد ملاح کے زمانے میں ایک عظیم فتنے نے سر اٹھایا۔ بدین کے قریب ’’لواری‘‘ نام کی ایک خانقاہ ہے، جہاں ابتدامیں توعرس اور میلے کا سلسلہ چلتا تھا، مگر 1938ء میں باقاعدہ طور پر یہ اعلان کیاگیا کہ آئندہ 9 ذو الحجہ کو لواری میں غریبوں کے لیے خطبۂ حج پڑھا جائے گا اور پراپیگنڈہ کیا گیا کہ جو شخص حج کے دنوں میں لواری کی درگاہ پر بہ ارادہ حج حاضری دے گا، وہ عنداللہ حاجی اور ناجی ہے۔ درگاہ کے باہر ایک بورڈ پر یہ الفاظ تحریر کیے گئے: ’’حاجی، ناجی، غازی کو صد مبارک، صد سلام، خطبہ حج تین بجے دیا جائے گا۔‘‘ یہاں تک کہ (نعوذ باللہ) لواری کی زمین کو مکہ اور مدینہ کہا گیا۔ آب زم زم، عرفات اور جنت البقیع کے نام بھی تجویز کیے گئے۔ اس مشرکانہ اور اسلام سے باغیانہ سازش کے متعلق سن کر نہ صرف صوبہ سندھ بلکہ ہر اُس جگہ سے جہاں جہاں یہ روح فرسا خبر پہنچی، موحدین کے کارواں یکے بعد دیگرے بدین پہنچنے لگے۔ ان میں افغانی بھی تھے، سندھی بھی تھے، بلوچی بھی تھے اور پنجاب کے لوگ بھی تھے۔ اس کاروانِ توحید کی قیادت مولانا احمد ملاح کر رہے تھے۔ انھوں نے وہاں پہنچتے ہی اعلان کیا کہ حج کے لیے اللہ نے صرف مکہ مکرمہ کا انتخاب کیا ہے۔ ہم لوگ مرجائیں گے، لیکن لواری یاکسی بھی جگہ یہ حرکت نہیں کرنے دیں گے جو تم کرنا چاہتے ہو۔ انگریزی حکومت کا زمانہ تھا، مولانا کو گرفتار کر لیا گیا۔ لوگوں نے اس پر سخت احتجاج کیا۔ بالآخر مولانا احمد ملاح کامیاب ہوئے اور لواری کا ’’حج‘‘ کرنے