کتاب: برصغیر میں اہل حدیث کی اولیات - صفحہ 34
میں تغیر کیا اور وہ دوسرا ترجمہ قرار پاگیا۔ کسی زبان میں جتنے بھی ترجمے ہوئے ہیں، وہ تغیرِ الفاظ ہی کا نتیجہ ہیں۔ شاہ صاحب کے الفاظ میں تغیر ہوا تو وہ حافظ صاحب کا ترجمہ ہوگیا۔ لیکن حافظ صاحب اسے اپنا ترجمہ نہیں قرار دیتے، بلکہ شاہ صاحب کا ترجمہ قرار دیتے ہیں۔ یہ ان کا انکسار ہے۔ پنجابی ترجمے کے متعلق ان کا ارشاد ہے کہ یہ شاہ رفیع الدین صاحب دہلوی کے اردو ترجمے کا پنجابی ترجمہ ہے۔ اسے بھی ان کے انکسار ہی سے تعبیر کیا جائے گا۔ بہرحال واقعہ یہ ہے کہ حضرت حافظ محمد لکھوی نے قرآن مجید کا دو زبانوں میں ترجمہ کیا، ایک فارسی زبان میں اور ایک پنجابی زبان میں۔ اس طرح وہ ہندوستان کے تیسرے اور متحدہ پنجاب کے پہلے عالم دین ہیں، جنھوں نے قرآن سے متعلق تین قسم کی خدمات سر انجام دیں۔ ایک فارسی ترجمہ، دوسرا پنجابی ترجمہ اور تیسری خدمت ہے اس کی پنجابی نظم میں تفسیر جو بڑے سائز کی سات ضخیم جلدوں کا احاطہ کیے ہوئے ہے اور اڑھائی ہزار صفحات پر مشتمل ہے۔ حضرت حافظ محمد لکھوی موجودہ جغرافیائی اعتبار سے ہندوستان کے ضلع فیروزپور (مشرقی پنجاب) کے ایک چھوٹے سے گاؤں ’’لکھو کے‘‘ میں 1221ھ (1807ء) کے لگ بھگ پیدا ہوئے اور برصغیر کے جلیل القدر علما سے تحصیل علم کی۔ نہایت ذہین تھے اور غیر معمولی قوتِ حفظ کے مالک۔ وسعتِ مطالعہ کا یہ عالم کہ حضرت میاں سید نذیر حسین دہلوی انھیں کتب خانہ کہا کرتے تھے۔ حافظ محمد کے دادا حافظ احمد نے اپنے چھوٹے سے گاؤں لکھوکے میں ایک دارالعلوم جاری کیا تھا، حافظ محمد نے 1840ء کے لگ بھگ اس کا نام مدرسہ محمدیہ رکھا،جس میں بے شمار علماو طلبا نے علم حاصل کیا۔ تقسیم ملک کے بعد یہ دارالعلوم ’’جامعہ محمدیہ‘‘ کے نام سے اوکاڑہ میں منتقل ہوا۔اس کے ناظم و مہتمم حضرت حافظ صاحب کے پڑپوتے مولانا معین الدین لکھوی (متوفی