کتاب: برصغیر میں اہل حدیث کی اولیات - صفحہ 26
ہر وقت کوشاں رہنے والے۔! میری بات سن کر ان دونوں عزیزوں نے مجھے کہا کہ میں کتابی صورت میں اہل حدیث کی ان اوّلیات کی نشان دہی کردوں جو میرے ذہن میں موجود ہیں۔ میں نے اس پر رضا مندی کا اظہار تو کردیا لیکن دیگر تصنیفی مصروفیات کی وجہ سے اس کی عملی شکل پیدا نہ ہوسکی۔ پھر یہ ہوا کہ 11۔ستمبر 2011ء کو سڑک کے ایک حادثے میں میرے دائیں ہاتھ کی ہڈی ٹوٹ گئی اور تحریر ونگارش کا سلسلہ رک گیا۔ پرائیویٹ ہسپتال میں آپریشن کرایا گیا اور چھ ہفتے کے لیے بازو پلستر کی گرفت میں آگیا۔ پلستر اترنے کے بعد بھی قلم پکڑنے کی سکت نہ تھی۔ اس اثنا میں کویت سے مولانا عارف جاوید محمدی تشریف لائے اور انھوں نے گوجراں والا کے ڈاکٹر طاہر منیروریاہ سے بات کی، جن کا گوندلاں والاروڈ پر ہڈی اور جوڑ کا کلینک ہے اور وہ اس مرض کے مشہور معالج ہیں۔ یکم جنوری 2012ء کو محترم حاجی عبداللہ کوثر (جو ڈاکٹر صاحب ممدوح کے سسر ہیں) گوجرانوالا سے گاڑی لے کر آئے اور مجھے ڈاکٹر صاحب کے کلینک لے گئے۔ معلوم ہوا کہ بازو جام ہوگیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے چند دوائیں دیں اور بازو کی ورزش کے متعلق تاکید کی۔ اس طرح ہر پندرہ روز کے بعد حاجی عبداللہ کوثر صاحب گاڑی لاتے اور مجھے وہاں لے جاتے اور شام کو چھوڑجاتے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے انتہائی کرم فرمایا اورنصف فروری 2012ء (یعنی پانچ مہینے) کے بعدقلم کسی حد تک انگلیوں کی گرفت میں آنے لگا اور ہاتھ میں کچھ جنبش پیدا ہوئی تو پندرہ بیس روز میں اہل حدیث کی اوّلیات کے سلسلے کی چند باتیں معرضِ کتابت میں آگئیں۔ تکلیف تھوڑی بہت اب بھی ہے، لیکن اللہ کی مہربانی سے کام ہو رہا ہے۔ میں جو کچھ لکھتا ہوں یہ اصحابِ علم کی مساعی کے تذکار اور اللہ کے دین کے مبلغوں کے تراجم ہیں۔ اس معصیت کیش کو یقین ہے کہ ان تذکارو تراجم کی برکت