کتاب: برصغیر میں اہل حدیث کی اولیات - صفحہ 23
انگریز حکمرانوں نے ان لوگوں کو زنجیروں میں جکڑ کر کالے پانی بھیجا اور ان میں سے کتنے ہی حضرات حکومت کے ظلم وستم کا مقابلہ کرتے ہوئے وہیں وفات پاگئے۔ ان کی جادادیں ضبط کی گئیں اور ان کے اخلاف کو بے حد اذیتوں میں مبتلا کیا گیا۔ آزادیِ وطن کے بعد ہندوستان کی حکومت کے سرکردہ ارکان نے ان کے وارثوں سے ان کی ضبط شدہ جادادوں کے بارے میں گفتگو کرنا چاہی تو انھوں نے اس موضوع پر یہ کہہ کر گفتگو کرنے سے انکار کردیا کہ ہمارے بزرگوں کے نزدیک انگریزوں کو برصغیر سے نکالنا اور ان کی حکومت کو ختم کرنا ضروری تھا۔ وہ اسے کارِ خیر سمجھ کر اس میدان میں اترے تھے، ہم بھی اسے کارِ خیر ہی سمجھتے ہیں۔ اس کا اللہ ہی بہتر بدلہ دے گا۔ اس دنیا میں ہم اس کا ہر گز کوئی معاوضہ نہیں لینا چاہتے۔ وجہِ تالیف یہاں چند الفاظ میں یہ بتانا ضروری ہے کہ یہ کتاب کس طرح معرضِ تالیف میں آئی۔ 2008ء کے ماہِ جون کے آخر میں عمرے سے فارغ ہو کر ’’لجنۃ القارۃ الہندیۃ‘‘ کی دعوت پر بھٹی صاحب کویت تشریف لائے۔ لجنہ کے ارکان کو ان سے مل کر نہایت خوشی ہوئی۔ تقریباً دو ہفتے ان کا یہاں قیام رہا۔ وہ خوش مزاج، خوش اخلاق اور میل جول والے شخص ہیں۔ مختلف اوقات میں ان کی مجلس میں بے شمار باتیں ہوئیں۔ ایک روز انھوں نے برصغیر میں اہل حدیث کی اوّلیات کا تذکرہ کیا تو طبیعت لہرا اٹھی۔ اس مجلس کی تمام باتیں میرے ذہن میں محفوظ ہیں۔ ان سے گزارش کی گئی کہ یہ باتیں آپ قلم بند کردیں تو ان کا عربی زبان میں ترجمہ کیا جائے گا۔ انھوں نے اس کا وعدہ تو کر لیا لیکن اپنی تصنیفی مصروفیات کی بنا پر یہ خدمت انجام نہ دے سکے۔ پھر 11۔ستمبر 2011ء کو انھیں حادثہ پیش آگیا اور دائیں بازو کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ پانچ مہینے کوئی تحریری کام نہ کرسکے۔ ہم ہزاروں میل