کتاب: برصغیر میں اہل حدیث کی اولیات - صفحہ 19
ترجمہ کیا اور حل طلب مقامات پر حواشی لکھے۔ یہ ترجمہ تقریباً ساڑھے نو سو صفحات میں پھیلا ہوا ہے۔ اسی اثنا میں اس کتاب کا فارسی ترجمہ چھپا۔ انگریزی ترجمہ بہت بعد میں ہوا۔ پھر ’’برصغیر میں علم فقہ‘‘ لکھی۔ بعد ازاں ’’فقہاے ہند‘‘ تصنیف کی جو دس جلدوں پر مشتمل ہے۔ اسی ادارے کی طرف سے ایک کتاب انھوں نے ’’برصغیر میں اسلام کے اوّلیں نقوش‘‘ لکھی، جس میں بتایا گیا ہے کہ اس خطۂ ارض میں (جسے اب برصغیر پاک وہند کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے اور بنگلہ دیش بھی اس کا حصہ ہے) پچیس صحابہ کرام، بیالیس تابعین اور اٹھارہ تبع تابعین تشریف لائے۔ اپنے موضوع کی یہ منفرد اور اولیں تصنیف ہے۔ مولانا محمد حنیف ندوی کے حالات میں انھوں نے ’’ارمغانِ حنیف‘‘ تصنیف کی۔ ادارے کے ماہانہ رسالے ’’المعارف‘‘ کی ادارت بھی بھٹی صاحب کے سپرد رہی۔ ادارہ ثقافت اسلامیہ میں انھوں نے بتیس برس خدمات سرانجام دیں اور مذکورہ بالا تصانیف وتراجم کے علاوہ اور بھی متعدد قلمی کام کیے، جن کی تفصیل اس مختصر مقدمے میں بیان کرنا مشکل ہے۔ اس کے لیے یا تو ان کی خود نوشت ’’گزرگئی گزران‘‘ پڑھنی چاہیے جو کتاب سرائے اردو بازار لاہور نے شائع کی ہے یا مولانا محمد رمضان سلفی کی مرتبہ کتاب ’’مولانا محمد اسحاق بھٹی۔ حیات وخدمات‘‘ کا مطالعہ کرنا چاہیے جو ہندوستان وپاکستان کے مختلف حضرات کے ان مضامین کا خوب صورت مجموعہ ہے جو انھوں نے بھٹی صاحب کے بارے میں بہت سے رسائل وجرائد میں لکھے۔ ان میں میرے ایک عربی مضمون کا اردو ترجمہ بھی دیا گیا ہے جو میں نے کویت کے ماہانہ مجلے ’’أمّتي‘‘ میں لکھا تھا۔ یہ کتاب مکتبہ رحمانیہ ناصر روڈ، سیالکوٹ کی طرف سے چھپی ہے۔ بھٹی صاحب کی خاکہ نگاری پر پنجاب یونیورسٹی (لاہور) سے ایک خاتون پروفیسر نے ایم فل کیا۔ ایم فل کا مقالہ فیصل آباد کے ایک ناشرِ کتب نے شائع کر دیا ہے۔ اس میں بھی بھٹی صاحب کے حالات ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں۔