کتاب: برصغیر میں اہل حدیث کی اولیات - صفحہ 170
مولانا شمس الحق سلفی تھا جنھوں نے 3۔جولائی 1986ء کو وفات پائی۔ حضرت مرحوم کا شمار ہندوستان کے عالی مرتبت علما اور ممتاز اساتذۂ حدیث میں ہوتا تھا۔ بے شمار حضرات نے ان سے اخذِ علم کیا۔ ان کے صاحب زادے مولانا محمد عزیر شمس نے خالص علمی ماحول میں پرورش پائی اور وہ اپنے ملک ہندوستان کے مختلف تعلیمی اداروں کے اساتذہ سے استفادہ کرتے ہوئے مدینہ یونیورسٹی پہنچے اور وہاں متعدد ملکوں کے اصحابِ کمال سے چار سال اکتساب فیض کرتے رہے اور عربی زبان وادب میں درجہ تخصص سے بہرہ ور ہوئے۔ وہاں سے فارغ ہو کر مکہ مکرمہ کی جامعہ ام القریٰ میں داخلہ لیا۔ اس طرح دونوں یونیورسٹیوں میں تحصیل علم کی۔ یہ بہت بڑی سعادت ہے جو ان کے حصے میں آئی۔ ان کا دائرہ خدمتِ علم اللہ کے فضل سے بہت وسیع ہے۔ ان کا قلم عربی، اردو دونوں میدانوں میں یکساں چلتاہے۔ طویل مدت سے مکہ مکرمہ میں اقامت گزیں ہیں اور خوب تصنیفی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ انھوں نے علامہ عبدالعزیز میمن کی تمام تصانیف وتحقیقات کا مطالعہ کیا اور علامہ نے عربی ادب ولغت کے سلسلے میں جو کارنامے سرانجام دیے، ان سے یہ بے حد متاثر ہوئے۔ اس تاثر کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے تمام مضامین ومقالات کو جو مختلف رسائل میں چھپے تھے، جمع کیا اور انھیں ’’بحوث وتحقیقات للعلامۃ عبد العزیز المیمني‘‘ کے نام سے دو جلدوں میں شائع کیا۔ محمد عزیر شمس صاحب ماشاء اللہ بڑے باہمت اور مستعد اہل علم ہیں۔ ہمیشہ کسی نہ کسی علمی کام میں مصروف رہتے ہیں۔ انھوں نے جن کتابوں کا عربی زبان میں ترجمہ کیا وہ مندرجہ ذیل ہیں: مسدس حالی کا نثری ترجمہ