کتاب: برصغیر میں اہل حدیث کی اولیات - صفحہ 17
کی تعداد کے اعتبار سے اگرچہ اختصار کا پہلو لیے ہوئے ہے، لیکن اس اختصار میں اپنے موضوع کی تمام اہم اور ضروری چیزیں ضبطِ تحریر میں آگئی ہیں۔ مجھے اس مختصر کتاب کا مطالعہ کرکے بے حد مسرت ہوئی۔ اس میں اہل حدیث کی نومتنوع اوّلیات کا ذکر کیا گیا ہے۔ ان نو اوّلیات کو اگر الگ الگ تفصیل سے بیان کیا جائے تو یہ متعدد ضخیم جلدوں کا مواد بن سکتا ہے اور اگر بہت ہی اختصار سے کام لیا جائے تو کم سے کم نو ضخیم جلدیں ضرور بن جائیں۔ محترم بھٹی صاحب کو ابتدائی زندگی ہی میں مطالعہ کتب کا شوق تھا۔ برصغیر کی اسلامی تاریخ سے انھیں بالخصوص دلچسپی تھی۔ اس میں بھی اہل حدیث کی تگ و تازِ بو قلموں ان کا انتہائی پسندیدہ موضوع تھا۔ اہل حدیث کی تصنیفی مساعی، ان کی تدریسی تگ ودو، ان کی سیاسی جدوجہد اور ان کی مناظرانہ سرگرمیوں سے آگاہ ہونے کی کوشش ہمیشہ بھٹی صاحب کا اصل مقصد رہی۔ ان کی یہ کتاب پڑھ کر ان کے بارے میں بہت کچھ لکھنے کو جی چاہ رہا ہے، لیکن پھر خیال آتا ہے کہ مختصر کتاب پر مختصر مقدمہ لکھنا چاہیے۔ اگر بات آگے بڑھی تو موضوع کے دائرے سے بھی باہر نکل جائے گی اور اختصار کا سلسلہ بھی برقرار نہیں رہ سکے گا۔ البتہ ان کی تصنیفی خدمات سے متعلق چند باتیں عرض کرنا ضروری ہے۔ تحریر ونگارش کا آغاز بھٹی صاحب نے ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ کے اجرا کے بعد قلم پکڑا اور تحریر ونگارش کا آغاز کیا۔ یہ اخبار اگست 1949ء میں مولانا محمد حنیف ندوی کے زیر ادارت جاری ہوا تھا۔ بھٹی صاحب اس وقت بائیس تیئیس سال کے نوجوان تھے اور مرکزی جمعیت اہل حدیث کی نظامتِ دفتر ان کے سپرد تھی۔ اخبار جاری ہوا تو انھوں نے اس میں لکھنا شروع کیا۔ قلم کی رفتار چوں کہ صحیح سمت کو جاری رہی تھی، اس لیے جلدہی انھیں