کتاب: برصغیر میں اہل حدیث کی اولیات - صفحہ 162
خدمات کا آغاز کیا تھا جو طویل عرصے تک جاری رہا اور ہزاروں اصحابِ علم نے ان سے استفادہ کیا۔ ان میں سے بے شمار لوگ پاکستان وہندوستان کی حکومتوں کے اہم مناصب پر فائز رہے۔ ان کے پشاور کے شاگردوں کی فہرست میں سردار عبدالرب نشتر، ارباب محمد عباس، مہر چند کھنہ، خان عبدالغفار خان کے بھانجے محمد یونس خاں کے نام شامل ہیں۔ اورینٹل کالج لاہورکے فیض یافتگان میں سے مولانا امتیاز علی عرشی، ڈاکٹر شیخ عنایت اللہ، ڈاکٹر عبداللہ چغتائی شامل ہیں۔ علی گڑھ میں ان سے لاتعداد شاگردوں نے استفادہ کیا۔ وہ اپنے عہد کے رفیع القدر معلم تھے۔ طلبا ان سے ہمیشہ مطمئن رہے اور انھوں نے طلبا کی علمی تربیت کو اپنا بنیادی فریضہ قرار دیے رکھا۔ اب آیے میمن صاحب کی تصنیفی اور تحقیقی تگ وتاز کی طرف۔! علامہ عبدالعزیز میمن کی مطبوعہ تصانیف کی تعداد تیس سے زیادہ ہے۔ ان میں سے چند کتابوں کا ذیل میں تذکرہ کیا جاتا ہے۔ إقلید الخزانۃ:گیارھویں صدی ہجری کے معروف عالم شیخ عبدالعزیز بغدادی نے ’’خزانۃ الأدب ولب لباب لسان العرب‘‘ کے نام سے ایک کتاب تصنیف کی جو ایک ضخیم کتاب ہے اور اہم ترین معلومات کا خوب صورت مجموعہ۔! علامہ عبدالعزیز میمن نے اس کتاب کو ایڈٹ کیا، اس میں کچھ ضروری اضافے کیے اور اسے ’’إقلید الخزانۃ‘‘ کے نام سے شائع کیا۔ سمط اللآلي في شرح أمالي القالي: اندلس کے حاکم عبدالعزیز الناصر (300۔ 350ھ) نے ایک نامور اہل علم ابوعلی القالی کو اپنے بیٹے ’’الحکم‘‘ کا اتالیق مقرر کیا تھا۔ انھوں نے اپنے شاگرد الحکم کو املا کی شکل میں تعلیم دی۔ بعد میں ان امالی کو کتابی صورت دے کر اس کا نام ’’الأمالي لأبي علي القالي‘‘ رکھا۔ علامہ میمن نے بڑی تحقیق وتدقیق سے اس کی تدوین