کتاب: برصغیر میں اہل حدیث کی اولیات - صفحہ 161
تھے، جن میں ممتاز حسن، ڈاکٹر سید محمد یوسف، ڈاکٹر نبی بخش بلوچ اور پاکستان میں مصر کے سفیر ڈاکٹر عبدالوہاب عزام کے نام قابل ذکر ہیں۔ ان حضرات نے اصرار کیا کہ وہ کراچی رہیں اور اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی ڈائریکٹر شپ کا عہدہ قبول فرمالیں۔ لیکن کراچی کی آب و ہوا ان کے موافق نہ تھی اور یہاں کے حکومتی حالات سے بھی وہ مطمئن نہ تھے، تاہم یہ ایک علمی کام تھا جو ان کے ذہن کے مطابق تھا، اس لیے رضامند ہوگئے۔ لیکن ادھر ہندوستان میں بھی ان کا بڑا مقام تھا اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں انھوں نے پچیس سال خدمات سر انجام دی تھیں۔ ان کے وہاں بے شمار شاگرد اور قدردان تھے۔ علی گڑھ میں ’’میمن منزل‘‘ کے نام سے ان کی کوٹھی بھی تھی۔ وہ کراچی سے علی گڑھ گئے، وہاں کے معاملات درست کیے اور واپس کراچی آگئے۔ کراچی میں جو کام ان کے سپرد کیا جا رہا تھا، وہ ان کے ذوق کے ہم آہنگ خالص علمی اور تحقیقی کام تھا۔ انھوں نے اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی ڈائریکٹرشپ کا عہدہ سنبھال لیا۔ مارچ 1959ء میں انھیں کراچی یونیورسٹی کے شعبہ عربی کے پروفیسر اور صدر بھی مقرر کردیا گیا۔ اب وہ 72 سال کی عمر کو پہنچ گئے تھے۔ چنانچہ جون 1960ء میں ڈاکٹر اشتیاق حسین کے ڈائریکٹر مقرر ہونے کے بعد انھوں نے انسٹی ٹیوٹ کی ذمہ داریوں سے علاحدگی اختیار کر لی۔ بعدازاں 1964ء میں پروفیسر حمید احمد خاں پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر بنائے گئے تو ان کے اصرار پر وہ لاہور آگئے اور پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ عربی کی زمام صدارت ہاتھ میں لی۔ لیکن اس منصب پر وہ دو سال فائز رہے۔ 1966ء میں کراچی تشریف لے گئے۔ علامہ عبدالعزیز میمن نے 1913ء میں ایڈورڈ مشن کا لج پشاور سے تدریسی