کتاب: برصغیر میں اہل حدیث کی اولیات - صفحہ 160
معلومات کی شہرت تقریباً ملک کے تمام تدریسی اداروں میں پہنچ گئی تھی۔ 1913ء میں ان کی نصابی تعلیم کی تکمیل ہوئی تو اسی سال انھیں ایڈورڈ مشن کالج پشاور میں عربی اور فارسی کے استاذ مقرر کر لیا گیا۔ 1920ء میں وہ پشاور سے پنجاب یونیورسٹی کے اورینٹل کالج لاہور چلے گئے۔ یہاں انھیں مولوی محمد شفیع، مولوی نجم الدین، سید محمد طلحہ، سید اولاد حسین شاداں بلگرامی اور دیگر متعدد نامور اصحاب علم کی رفاقت میسر آئی۔ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے وائس چانسلر صاحب زادہ آفتاب احمد خاں مقرر ہوئے تو انھوں نے ان کو اپنے ہاں بلا لیا۔ یہ نومبر 1925ء کی بات ہے۔ مسلم یونیورسٹی میں انھیں شعبہ عربی کے ریڈر مقرر کیا گیا۔ بعد ازاں یونیورسٹی کے صدر شعبہ عربی بنا دیے گئے۔ دسمبر 1943ء میں بہ طور پروفیسر ان کا تقرر عمل میں لایا گیا۔ اس منصب پر وہ مارچ 1949ء تک فائز رہے۔ یہاں یہ یادرہے کہ اس سے قبل مسلم یونیورسٹی کے شعبہ عربی کے صدر جرمنی یا انگلستان کے کسی مستشرق کو بنایا جاتا تھا، علامہ عبدالعزیز میمن پہلے ہندوستانی ہیں جنھیں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اس عہدے پر فائز کیا گیا۔ جب مارچ 1949ء میں ان کی مدتِ صدارت ختم ہوئی اس وقت مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر ذاکر حسین خاں تھے (جو اس سے کئی سال بعد ہندوستان کے صدر منتخب کیے گئے) انھوں نے علامہ میمن کی مدتِ ملازمت ایک سال بڑھا دی۔اس طرح وہ 31۔مارچ 1950ء کو مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے شعبہ عربی کے عہدۂ صدارت سے سبک دوش ہوئے۔ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کی تدریسی ذمہ داریوں سے فراغت کے بعد علامہ عبدالعزیز میمن چار پانچ سال وہیں رہے۔ پھر اپنے اعزہ واقارب سے ملاقات کے لیے کراچی تشریف لے گئے۔ کراچی میں ان کے بہت سے قدردان اور شاگرد موجود