کتاب: برصغیر میں اہل حدیث کی اولیات - صفحہ 159
والد صاحب تجارت پیشہ ہونے کے ساتھ خالص مذہبی ذہن رکھتے تھے۔ وہ بیٹے کو دینی تعلیم دلانے کے شائق تھے۔ دہلی کو اس وقت علم اور علما کے بہت بڑے مرکز کی حیثیت حاصل تھی اور وہاں دینی تعلیم کے متعدد مدرسے جاری تھے، جن میں مشہور وممتاز علماے کرام خدمتِ تدریس سرانجام دے رہے تھے، چنانچہ والد نے بیٹے کو دہلی بھیج دیا۔ یہ اواخر دسمبر 1901ء کی بات ہے۔ اس وقت میمن صاحب تیرہ سال کی عمر کو پہنچے تھے۔ وہاں انھوں نے عربی اور فارسی کی چند کتابیں پڑھیں۔ نیز صرف ونحو کی چھوٹی بڑی کتابوں کی تکمیل کی۔ حدیث کی مشکوٰۃ شریف بھی وہیں پڑھی۔ ان کے اس دور کے اساتذہ میں ڈپٹی نذیر احمد، مولانا محمد بشیر سہسوانی اور مولانا عبدالوہاب دہلوی کے اسماے گرامی قابلِ تذکرہ ہیں۔ مولانا سہسوانی سے انھوں نے تفسیر وحدیث کے علوم حاصل کیے اور بعض دیگر علوم کی کتابیں بھی پڑھیں۔ ڈپٹی نذیر احمد سے عربی ادبیات میں سے حماسہ، ابو تمام، دیوان متنبی، مقاماتِ حریری اور المعری کی سقط الزند باقاعدہ سبقاً سبقاً پڑھیں۔ اپنے ان دونوں اساتذہ سے وہ بے حد متاثر تھے اور ان کے علم وفضل کے انتہائی مداح۔ 1326ھ (1908ء) میں مولانا سہسوانی فوت ہوئے تو لائق شاگرد نے جلیل القدر استاذ کی وفات پر عربی میں درد ناک مرثیہ لکھا۔ میمن صاحب نہایت ذہین اور حصولِ علم میں انتہائی تیز تھے۔ انھوں نے 1911ء میں پنجاب یونیورسٹی سے منشی فاضل اور 1913ء میں مولوی فاضل کے امتحانات دیے اور اول پوزیشن حاصل کی۔ منشی فاضل اس زمانے میں فاضل فارسی کو کہا جاتا تھا اور مولوی فاضل کا اطلاق فاضل عربی پر ہوتا تھا۔ درسیات کی تکمیل کے بعد ان کی عملی زندگی کا آغاز ہوا۔ ان کی ذہانت اورکثرت