کتاب: برصغیر میں اہل حدیث کی اولیات - صفحہ 157
علماے کرام اور مشائخ سے مذاکرات کیے۔ ازہر کے شیخ الجامعہ شیخ احمد المامون الشناوی سے ملے اوران سے باتیں ہوئیں۔ معروف مصری استاذ شیخ علی مصطفی الغرابی سے بھی ملاقات کی۔ جدہ جانے کے بعد علامہ حریری مدینہ منورہ گئے۔ مدینہ منورہ کے ایک بازار میں کھڑے تھے۔ پتا چلا کہ یہاں سے مفتی اعظم فلسطین علامہ سید امین الحسینی گزررہے ہیں۔ انھوں نے حریری صاحب کو پہچان لیا۔ مفتی اعظم شاہی مہمان تھے، وہ مولانا کو بھی اپنے ساتھ اپنی قیام گاہ پر لے گئے۔ وہاں عرب ممالک سے آئے ہوئے بہت سے علما وفضلا کا مجمع تھا۔ یہ سب مولانا حریری کی تھوڑی سی گفتگو سے اس درجہ متاثر ہوئے کہ ان کی جلالت علمی کا اعتراف کرنے لگے۔ شاہ سعود اس وقت حاکمِ حجاز تھے۔ ان کی دعوت پر مولانا حریری ریاض تشریف لے گئے۔حریری صاحب نے شاہ سعود کے فرمان پر ان کا شاہی کتب خانہ مرتب کیا۔ جب مولانا حریری کتب خانے کی ترتیب وتنظیم سے فارغ ہوئے تو ان کے اعزاز میں شاہ سعود کی طرف سے ایک جلسے کا اہتمام کیا گیا۔ وزراء، مشیر اور عمائدِ شہر اس جلسے میں شریک ہوئے۔ جب مولانا نے اس کتب خانے کے انتظام کے متعلق بتایا تو ہر طرف سے ’’أحسنت مرحبا‘‘ کی صدائیں بلند ہونے لگیں۔ علامہ عبدالمجیدحریری نے کوئی کتاب تصنیف نہیں کی۔ البتہ بنارس کے ایک مفتی (جو حنفی عالم تھے) کے جواب میں بنارس کے اہل حدیث عالم دین مولانا عبدالمتین صاحب کے تحریر کردہ رسالے ’’نماز جنازہ اندرون مسجد‘‘ پر ایک مسبوط علمی تقریظ لکھی تھی۔ اس کے علاوہ 1928ء میں منعقدہ ’’مومن کانفرنس‘‘ کی صدارت فرمائی۔ اس کے بعد 1939ء میں اسی جماعت کی کانفرنس کی صدارت کلکتہ میں فرمائی۔ 1940ء میں انھوں نے یوپی آزاد مسلم کانفرنس منعقدہ لکھنؤ میں خطبۂ صدارت پڑھا۔ یہ تینوں کانفرنسوں کے صدارتی خطبے