کتاب: برصغیر میں اہل حدیث کی اولیات - صفحہ 156
عالم تھے، اس لیے انھوں نے ندوہ جانا پسند نہ کیا کہ شاید وہاں میری کسی سے نبھ نہ سکے، لیکن مولانا حریری کے اصرار پر وہ عربی زبان کی تدریس کے لیے دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ تشریف لے گئے۔ یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ اگر علامہ ہلالی مراکشی ندوہ نہ تشریف لے جاتے تو مولانا مسعود عالم ندوی اور سید ابوالحسن علی ندوی کا اتنا نام اور کام نہ ہوتا۔ یہ مولانا عبدالمجید حریری کا اہل ندوہ پر احسان ہے لیکن اس مادی دنیا میں اس قسم کے احسان کوکون یاد رکھتا ہے؟ جن لوگوں نے ان سے استفادہ کیا، وہ عرصہ گزرا دنیا سے رخصت ہوگئے اور معاملہ ختم ہوگیا۔ علامہ حریری جب تک زندہ رہے، علامہ ہلالی تعطیلات کے ایام بنارس میں گزارتے۔ علامہ موسیٰ جار اللہ روسی، انقلابِ روس کے بعد جلا وطن ہوئے تو وہ بنارس میں مولانا عبدالمجید حریری کے مہمان رہے۔ مولانا حریری نے ان سے ترکی زبان سیکھی۔ مولانا محمد سورتی جب مولانا حریری کو خط لکھتے تو ’’الفاضل المجید و الظریف الوحید الأستاذ‘‘ اور جب علامہ موسیٰ جار اللہ انھیں خط لکھتے تو انھیں ’’الأدیب المجید‘‘ جیسے الفاظ سے خطاب فرماتے۔ مولانا حریری بلند بانگ خطیب اور خوش بیان مقرر بھی تھے۔ تقریر کرتے تو خوب صورت الفاظ ان کی زبان سے نکلتے۔ عربی کے علاوہ ان کی اردو تحریر و تقریر بہت عمدہ تھی، کیوں کہ یہ ان کی مادری زبان تھی۔ فارسی اور عربی کے ہزاروں اشعار ان کے نوک زبان تھے۔ مناسب مواقع پر اشعار اپنی تقریروں میں استعمال فرماتے۔ بے شک وہ ایک عبقری انسان تھے۔ 1949ء میں حکومتِ ہند نے مولانا عبدالمجید حریری کو جدّہ میں ہندوستان کا کونسلر مقرر کیا۔ مولانا براستہ مصر، جدہ گئے اور دو دن مصرمیں ٹھہرے۔ وہاں کے