کتاب: برصغیر میں اہل حدیث کی اولیات - صفحہ 155
ہے کہ آپ نے ہندوستان میں کسی تجارتی سلسلے میں رہائش رکھی ہے لیکن آپ ہیں عرب باشندے۔! مولانا حریری عربی اس قدر شستہ زبان میں بول رہے تھے کہ علامہ ثعالبی کو ان کے ہندوستانی نہ ہونے اور عرب ہونے کا واہمہ سا ہوگیا۔ علامہ حریری کے استاذ علامہ محمد منیر خاں نے جب علامہ ثعالبی کو یقین دلایا کہ یہ میرے شاگرد ہیں اور انھوں نے ساری عربی تعلیم مجھ سے حاصل کی ہے تو علامہ ثعالبی کو یقین کرنا پڑا۔ علامہ ثعالبی نے اپنی جوہر شناسی اور علم دوستی کی بنا پر مولانا حریری کو فرمایا کہ میرے ایک عرب دوست ہیں جو عربی ادب ولغت پر عمیق نظر رکھتے ہیں، اس وقت وہ غریب الوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اگر آپ اجازت دیں تو انھیں آپ کے پاس بھیج دوں۔ یہ علامہ تقی الدین ہلالی مراکشی تھے۔ مولانا حریری نے بڑی مسرت کے ساتھ یہ پیش کش قبول فرمائی اور علامہ ثعالبی سے بہ اصرار فرمایا کہ انھیں ضرور میرے پاس بنارس بھیج دیں۔ چناں چہ علامہ تقی الدین ہلالی مراکشی بنارس تشریف لے آئے اور دوسال حریری صاحب کے پاس مہمان کی حیثیت سے رہے۔ علامہ حریری نے ان کی بڑی مہمان نوازی کی اور بڑی محبت کا برتاؤ کیا۔ دونوں میں علمی مذاکرے ہوتے، علمی وادبی، نحوی اور لغوی مسائل پر تبادلۂ خیال ہوتا۔ مولانا حریری نے عربی گفتگو میں علامہ تقی الدین ہلالی کی بہ صورت مشق بڑی مدد کی۔ علامہ ہلالی نے مولانا حریری کے متعلق فرمایا کہ ’’وہ ایک ادیب ومحقق ہیں، ان کا علم، علمِ لدنی بھی ہے اور وہبی بھی ہے۔‘‘ سید سلیمان ندوی کے علم میں جب یہ بات آئی کہ علامہ تقی الدین ہلالی مراکشی، مولانا عبدالمجید حریری رحمہ اللہ کے مہمان ہیں تو انھوں نے انھیں لکھا کہ علامہ ہلالی کو عربی تدریس کے لیے دارالعلوم ندوہ (لکھنؤ) بھیج دیں۔ علامہ ہلالی ایک راسخ العقیدہ سلفی