کتاب: برصغیر میں اہل حدیث کی اولیات - صفحہ 154
اس کے رکن مقرر کیا۔ مولانا آزاد سے ان کا تعلق سیاسی اور علمی دونوں حیثیتوں سے تھا۔ مولانا آزاد کو مولانا حریری کے علم وادب اور لغت میں مہارت پر بڑا اعتماد تھا۔ سید سلیمان ندوی اور مولانا عبیداللہ سندھی جب بھی بنارس آئے، انھوں نے مولانا حریری ہی کے ہاں قیام فرمایا۔ مولانا عبدالمجید حریری کو سات زبانوں پر عبور حاصل تھا اور وہ سات زبانیں ہیں: اردو، عربی، فارسی، انگریزی، فرانسیسی، روسی، ترکی۔ان میں سے ہر زبان میں گفتگو کرنے کے ماہر ہونے کے ساتھ ہر اہل زبان کے لہجے میں بات کرتے تھے۔ انگریزی بولتے تو انگریزی لہجہ اور عربی بولتے تو ایسے معلوم ہوتا کہ خالص عرب کے باشندے ہیں۔ فارسی میں گفتگو فرماتے تو فارسی کے بہت بڑے ایرانی عالم وادیب معلوم ہوتے۔ عربی بولتے بھی خوب تھے اور لکھنے پر بھی قدرت رکھتے تھے۔ سید سلیمان ندوی نے ایک دفعہ مولانا سے کہا کہ ’’عربی زبان وادب پر آپ کو جو قدرت ومہارت حاصل ہے، اب تک میں اس مقام تک نہیں پہنچ سکا۔‘‘ ملک شام کے ایک جید عالم شیخ عبدالعزیز ثعالبی ایک دفعہ سیاحت کی غرض سے ہندوستان تشریف لائے تو بنارس میں مولانا حریری کے ہاں ان کا قیام رہا۔ وہ مولانا حریری سے بڑے متاثر ہوئے۔ انھیں کچھ پتا نہیں چل رہا تھا کہ یہ عرب عالم ہیں یا ہندوستانی۔ انھوں نے مولانا حریری سے سوال کیا کہ آپ نے جامعہ ازہر (مصر) میں کتنا عرصہ پڑھا؟ مولانا حریری نے فرمایا: میں مصر پڑھنے کی غرض سے نہیں گیا۔ میں نے ساری عربی تعلیم اپنے ہی وطن میں حاصل کی ہے۔ اس سلسلے میں میں نے ہندوستان سے باہر قدم نہیں نکالا۔ علامہ ثعالبی فرمانے لگے آپ کی زبان اور لہجے سے محسوس یہ ہو رہا