کتاب: برصغیر میں اہل حدیث کی اولیات - صفحہ 153
میں ایک مرتبہ جیل بھی گئے۔وہ ہمیشہ کانگرس کے ساتھ رہے۔ اخیر عمر میں سیاسی زندگی کو چھوڑ کر گوشہ نشینی اختیار کر لی تھی۔ایل ایل بی پاس کرنے کے بعد وکالت شروع کی۔ وکالت خوب چلی، لیکن تھوڑے عرصے کے بعد اس پیشے کو چھوڑ دیا، اس لیے کہ ’’اس میں صبح سے شام تک جھوٹ، فریب، بے ایمانی اور دغابازی سے کام لینا پڑتا ہے۔یہ پیشہ کسی شریف آدمی کے لیے مناسب نہیں۔‘‘ یہ کہا اور اس پیشے سے دست بردار ہوگئے۔ علامہ عبدالمجید حریری مطالعہ کتب کے بہت شائق تھے۔ رات دن مطالعے میں مصروف رہتے۔ اپنے ذاتی کتب خانے میں انھوں نے اپنے ذوق کی بہت سی کتابیں جمع کررکھی تھیں۔اب یہ کتب خانہ مرکزی دارالعلوم بنارس کی ملکیت میں ہے، جس سے طلبا، اساتذہ اور عام اہل علم استفادہ کرتے ہیں۔ مولانا حریری نے وفات سے تین برس قبل کتب خانہ دارالعلوم بنارس کے حوالے کردیا تھا۔ مولانا مسعود عالم ندوی نے جب اپنی کتابیں ’’ محمد بن عبدالوہاب۔ ایک مظلوم اور بدنام مصلح‘‘ اور ’’ہندوستان کی پہلی اسلامی تحریک‘‘ تالیف کیں تو انھوں نے اس کتب خانے سے بہت استفادہ کیا۔ مولانا عبدالمجید حریری بڑے مہمان نواز تھے اور انھیں اہلِ علم کے مرجع کی حیثیت حاصل تھی۔ بیرون ملک اور اندرون ملک سے جب کوئی عالم بنارس تشریف لاتے تو وہ مولانا عبدالمجید حریری کے مہمان ہوتے۔ مولانا ابو الکلام آزاد، سید سلیمان ندوی، مولانا محمد سورتی، مولانا عبدالعزیز میمن، مولانا مسعود عالم ندوی، ڈاکٹر ذاکر حسین خاں (سابق صدر ہندوستان) رفیع احمد قدوائی اور ملک کے دیگر اعیان و اکابر کے ساتھ مولانا حریری کے گہرے تعلقات تھے۔ آزادیِ وطن کے بعد جب مولانا ابو الکلام آزاد نے مدارس عربیہ کے نصابِ تعلیم میں اصلاح وترمیم کی غرض سے ایک کمیٹی تشکیل دی تو مولانا عبدالمجید حریری کو