کتاب: برصغیر میں اہل حدیث کی اولیات - صفحہ 151
کے ماہر اور عربی کے بہت بڑے ادیب تھے۔ مسلسل محنت کرتے کرتے آخری عمر میں مرضِ استسقا میں مبتلا ہوگئے تھے۔ تقریباً ڈھائی سال اس مرض میں مبتلا رہے۔ اسی دوران میں ان کا ایک بیٹا عبداللہ عین جوانی میں انتقال کر گیا۔اس صدمے نے مولانا کو نڈھال کردیا تھا۔ چناں چہ وہ 23۔ شعبان المعظم 1361ھ بروز جمعۃ المبارک (7۔اگست 1942ء ) کو علی گڑھ میں داعیِ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ انا للّٰه وانا الیہ راجعون۔ علامہ محمد سورتی رحمہ اللہ کے سات بیٹے اور چار بیٹیاں تھیں۔ حضرت موصوف بڑے سے بڑا نقصان برداشت کر لیتے تھے لیکن اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی خلاف ورزی برداشت نہیں کرتے تھے۔ اس معاملے میں نہایت سخت تھے۔ بِیڑی، سگریٹ، فوٹو کھنچوانا، سونے کے بٹن اور ریشم کے کپڑے اور ریڈیو پر خرافات سننے کے سخت خلاف تھے۔ ان کے بے شمار شاگردتھے۔ بعض شاگردوں کے نام درج ذیل ہیں: 1۔پروفیسر عبدالرحمن طاہر سورتی (مولانا کے بیٹے اور کئی کتابوں کے مصنف) 2۔ڈاکٹر ذاکر حسین (سابق صدر جمہوریہ ہندوستان) 3۔ڈاکٹر عبدالعلیم (لکھنؤ یونیورسٹی کے پروفیسر، بعدہ علی گڑھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر) 4۔پروفیسرمحمد سرور (ممتاز صحافی، بہت سی کتب کے مترجم اور مصنف) 5۔مولانا عبدالصمد شرف الدین (ممتاز عالم دین) 6۔رئیس احمد جعفری (ممتاز صحافی، بے شمار کتابوں کے مصنف ومترجم) 7۔محمد بن احمد العمری (سعودی عرب میں بڑے عہدوں پر فائز رہے) 8۔مولانا عبدالغفار حسن (ممتاز عالم اور سابق استاذ مدینہ یونیورسٹی) 9۔ڈاکٹر سید عبداللہ (سابق چیرمین اردو دائرہ معارف اسلامیہ اور درجنوں کتب کے مصنف)