کتاب: برصغیر میں اہل حدیث کی اولیات - صفحہ 150
اسلامیہ علی گڑھ اور جامعہ رحمانیہ بنارس میں اپنی تدریسی سرگرمیوں کے فیوض عام کیے۔۔۔ ان کا ادب وشعر کا مذاق عہد حاضر کے مصری اور شامی اربابِ نقد سے بہت کچھ ملتا تھا۔‘‘ مولانا سورتی پڑھائی کے معاملے میں سختی تو ضرور کرتے تھے لیکن انھیں اپنے طلباء سے محبت بھی بہت تھی۔ ڈاکٹر علامہ اقبال کی علمی وفکری صلاحیتوں کا ایک زمانہ معترف ہے، وہ بھی مولانا سورتی کی بے پناہ علمی قابلیت کے معترف تھے۔ جب انھیں اپنے انگریزی خطبات کے اردو ترجمے کا مسئلہ درپیش ہوا تو انھوں نے سید نذیر نیازی کے نام ایک خط لکھا: ’’سورتی صاحب سے مل لیجیے، وہ آپ کوتراجم کے متعلق بالخصوص اصطلاحات کے تراجم کے متعلق بہت مفید مشورے دیں گے۔‘‘ اس خط کے جواب میں سید نذیر نیازی نے اقبال کو لکھا: ’’میرا معمول تھا کہ خطبات کی اکثر عبارتیں علامہ محمد سورتی کو پڑھ کر سناتا۔‘‘[1] پروفیسر عبدالقیوم کی روایت ہے: ’’مولانا ابوالکلام آزاد نے مولانا سورتی سے یہ خواہش ظاہر فرمائی کہ آپ شاہ ولی اللہ دہلوی کی ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ کا اردو ترجمہ کریں۔ مولانا آزاد کے پیشِ نظر یہ بات تھی کہ حجۃ اللہ بڑے دقیق مسائل پر مشتمل ہے، اس لیے حجۃ اللہ کے اسلوب اور مسائل کی اہمیت کے پیش نظر مولانا سورتی کا علمی مقام اس بات کی ضمانت دے سکتا ہے کہ وہ اس اہم کتاب کا صحیح تریں اور قابلِ فہم ترجمہ کریں گے۔ ‘‘ بے شبہ مولانا سورتی اپنے وقت کے عظیم عالم دین، بہترین استاذ، علومِ دینیہ
[1] سید نذیر نیازی، مکتوباتِ اقبال (ص: 30)