کتاب: برصغیر میں اہل حدیث کی اولیات - صفحہ 149
بمبئی تشریف لے گئے تو وہاں کے اہل حدیث حضرات نے ان سے یہیں رہنے کی درخواست کی۔ مولانا سورتی نے اس مدرسے میں درسِ قرآن وحدیث اور ادبِ عربی کی تعلیم دینا شروع کی۔ اس طرح انھوں نے مختلف اوقات میں پانچ یا چھ مدارس میں خدمتِ تدریس سرانجام دی۔ تعلیم وتعلم کے علاوہ مولانا ممدوح کو قلمی کتابیں جمع کرنے کا بڑا شوق تھا۔ وہ پرانی کتابوں کی تلاش میں کتب خانوں کے چکر لگاتے رہتے تھے۔ اگر کہیں سے نادر چیزیں مل جاتیں تو انھیں خرید لیتے۔ دوران مطالعہ اس کی تصحیح بھی کرتے۔ بڑے بڑے سرکاری کتب خانے ان سے یہ نادر نسخے خریدتے تھے۔ مولانا کتابوں کے عاشق تھے اور انھیں حاصل کرنے میں بڑے مشّاق۔! جو کتاب پسند آتی اسے خریدتے۔ اگر کسی وجہ سے نہ خرید سکتے تو اسے نقل کر لیتے ۔ ٹونک میں کتابوں کی تلاش میں آئے تو یہیں ان کی شادی بھی ہوگئی۔ قلمی کتابوں کی فراہمی کے لیے وہ ٹونک، رام پور، پٹنہ، کلکتہ اور حیدر آباد (دکن) کے دور دراز شہروں کا سفر کرتے۔ حکیم اجمل خاں،مولانا سورتی کے ہم مکتب تھے۔ انہی کے ایما پر انھوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کی پروفیسری قبول فرمائی تھی۔ مولانا شرعی احکام کے سخت پابند تھے۔ ذرا سی بے راہ روی بھی ان کے لیے ناقابل برداشت تھی۔ طلبا واساتذہ ان کا بے حد احترام کرتے تھے۔ سب ان کی طبیعت سے واقف تھے۔ مولانا کے عتاب پر ان سب کی گردنیں جھک جاتیں۔ مولانا اپنے شاگردوں کو جو سبق پڑھاتے ، اسے باربار یاد کراتے، یہاں تک کہ یہ سبق طلبا کے ذہن میں راسخ ہو جاتا۔ سید سلیمان ندوی، مولانا سورتی کے طریقۂ تعلیم کوان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں: ’’انھیں عہد جاہلیت کے شعرا کا کلام سب سے زیادہ پسند تھا۔ جامعہ ملیہ