کتاب: برصغیر میں اہل حدیث کی اولیات - صفحہ 147
مولانا سورتی مطالعے کے بے حد شائق تھے۔ عربی کے ہر قابل ذکر قدیم وجدید ذخیرے تک رسائی حاصل کرتے۔ عربی ادب کے علاوہ ان کا تاریخ، اسماء الرجال اور حدیث کا مطالعہ بڑا وسیع تھا۔ جب کسی موضوع پر بحث کرتے معلومات کے دریا بہا دیتے۔ وہ عربی کے بے نظیر عالم اور محقق تھے اور عربی تصانیف کے بہترین نقاد بھی۔ وہ غیر معمولی حافظے کے مالک تھے۔ کسی کتاب پر ایک دفعہ نظر ڈال لیتے تو ازبر ہوجاتی۔ سید سلیمان ندوی نے ان کی وفات پر ماہنامہ ’’معارف‘‘ میں تحریر فرمایاتھا: ’’مرحوم کا پایہ علم وادب، رجال وانساب واخبار میں اتنا اونچا تھا کہ اس عہد میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ جو کتاب دیکھ لیتے تھے وہ ان کے حافظے کی قید میں آجاتی تھی۔ سیکڑوں نادر عربی قصائد، ہزاروں عربی اشعار وانساب نوکِ زبان تھے۔ ان کو دیکھ کر یقین آتا تھا کہ ابتدائی اسلامی صدیوں میں علما وادبااور محدثین کی وسعتِ حافظہ کی جو عجیب وغریب مثالیں تاریخوں میں مذکور ہیں وہ یقینا صحیح ہیں۔‘‘[1] مولانا عبدالغفار حسن مرحوم ومغفورنے بتایا کہ ’’وہ عربی بولتے تو ان کا لہجہ بالکل عربوں جیسا ہوتا تھا۔ ایک مرتبہ بیت اللہ شریف میں تقریر کر رہے تھے اور عرب ان کی تقریر اور لہجے کے نکھار سے حیران ہورہے تھے۔ بعض عرب اہل علم نے ان سے پوچھ ہی لیا کہ آپ کا تعلق حجاز سے ہے یا یمن سے یا عرب کے کسی اور علاقے سے؟ انھیں یقین نہیں آرہا تھاکہ یہ ہندوستانی ہیں۔‘‘ مولانا محمد صاحب سورتی کی شادی حکیم سید سعید احمد صاحب کی صاحب زادی سے ہوئی تھی جو ہندوستان کے مشہور طبیب تھے۔ مولانا سورتی کی ساری زندگی تعلیم وتعلم
[1] ’’معارف‘‘ اعظم گڑھ، ستمبر 1942ء۔